• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
زیر نظر مضمون میں درج ذیل چار تصورات کے بارے میں حقیقی صورت ِ حال واضح کی جائے گی :
…ہر سال دریائے سندھ کا 35ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
…اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو پاکستان کے پانی کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔
اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو سیلاب نہیں آئے گا۔
…سندھ کو منگلا ڈیم سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی اور یہ ڈیم صرف پنجاب کی آبی ضروریات پوری کرتا ہے۔
کالا باغ ڈیم پروجیکٹ کے بارے میں ہونے والی بحث سے متعلق ایک واہمہ یہ بھی ہے کہ ہر سال دریائے سندھ کا 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
ایک مشہورمقولہ ہے کہ جھوٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار ۔ دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میں مقیم مصنّفین کی کم و بیش تمام تحریروں میں پانی کی سالانہ دستیابی کے اعداد و شمار کو کالا باغ ڈیم پروجیکٹ کی تائید کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر ایک طویل عرصہ پر محیط پانی کے سالانہ اوسط بہائو کو مدِّنظر رکھا جائے تو یہ اعداد و شمار درست ہیں۔ لیکن مذکورہ اوسط بہائو سے جو اہم بات ظاہر نہیں ہوتی وہ دریا میں پانی کے بہائو کا ہر سال مختلف ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہمارے دریائی نظام میں پانی کے بہائو میں بہت زیادہ تغیّردیکھنے میں آیاہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کے بہائو میں یہ غیریقینی رُجحان مزید بڑھ سکتا ہے۔پانی کے بہائو کی گزشتہ 50 سال میں خشک سالی اور سیلاب کے دنوں میں آنے والے بہت زیادہ پانی کی اوسط ، صورت ِ حال کی صحیح عکاسی نہیں کرتی۔
پانی کے اوسط بہائو کو بنیاد بنا کر اگر پانی کی سالانہ دستیابی کے بارے میں تصویر کشی کی جائے تو سندھ کے لوگ اُس سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ بالائی علاقوں کے لوگ جان بوجھ کر اِن اعداد و شمار کو مسخ کرتے ہیںتاکہ آبی ذخیرہ تعمیر کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔ سال 2002-03 ء میں جب صدر پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا، تو اُنہوں نے بارہا اس بات کا حوالہ دیا کہ ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرکر ضائع ہوجاتا ہے۔ اُن کی اِس دلیل سے کالاباغ ڈیم کی تعمیرپر جمی برف تو کیا پگھلتی، سندھ کے لوگوں نے اسے اپنی عقل کی ہتک پر محمول کیا۔ مشرف کی بدقسمتی کہ اُن خشک سالی کے گزشتہ پانچ سالوں کے درمیان کوٹری بیراج سے زیریں جانب ہرسال اوسطاً پانی کا بہائو محض 3.47 ملین ایکڑ فٹ تھا۔ ذیل میں دیا گیا گراف صورتِ حال کی بہتر انداز میں وضاحت کرتا ہے۔ 40سال کے عرصہ پر محیط پہلے جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران ہر سال اوسطاً 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جا رہا ہے۔ جبکہ 1999ء سے 2005 ء کے دوران خشک سالی کا دور دورہ رہا اور اس عرصہ میں اوسطاً ہر سال کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج صرف 5.73ملین ایکڑ فٹ رہا۔
کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج
خشک سالی کے دوران کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج(ملین ایکڑ فٹ میں)
سال
خریف
ربیع
میزان
1999-2000
8.72
0.11
8.83
2000-2001
0.77
0.00
0.77
2001-2002
1.93
0.00
1.93
2002-2003
2.32
0.05
2.37
2003-2004
20.12
0.07
20.19
2004-2005
0.21
0.08
0.29
اوسط 1999-2005
5.68
0.05
5.73
اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو پاکستان کے پانی کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔
بعض لوگ اس خوش گمانی کا شکارہیں کہ پاکستان کی موجودہ اور مستقبل میں پانی کی ضروریات کے لئے کالاباغ ڈیم اکسیر اعظم کی مانند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آبی ماہرین اِسے ایک اچھاآبی منصوبہ سمجھتے ہیں ۔ مگر اِ س کی فوری تعمیر ممکن نہیں۔ اگر بالفرض محال کالاباغ ڈیم پر تمام صوبے آئندہ چند ہفتوں میں متفق ہوجائیں ، تب بھی اس پر تعمیراتی کام 3سال کے بعد شروع ہو سکے گا۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت 14.02ملین ایکڑ فٹ ہے آبی ذخائر میں مٹی بھرنے کے قدرتی عمل کی وجہ سے سات آٹھ سال کے بعدیہ13.32ملین ایکڑ فٹ رہ جائے گی۔امید ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر آئندہ سال شروع ہوجائے گی۔ اس تعمیر کے شروع ہونے کے تین چار سال بعد اگر کالا باغ ڈیم بھی شروع کیا جائے تو دونوں کے مکمل ہونے پر یہ صلاحیت 25ملین ایکڑ فٹ سے زائد ہوجائے گی ، جو40سال قبل منگلا اور تربیلاکی تعمیر کے بعد ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے تقریباً 30فیصد زیادہ ہوگی۔ یعنی ہم اپنے دریائوں میں پانی کے سالانہ بہائو کا20فیصدسے بھی کم ذخیرہ کرسکیں گے جبکہ دُنیا بھر میں دریائوں میں پانی کے سالانہ بہائو کا اوسطاً 40فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔اس لئے ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں صرف محدود اضافہ ہی ہوگا۔
اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیاجائے تو سیلاب نہیں آئے گا۔
مجھے 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد لکھے گئے بہت سے مضامین اور دستاویزات پڑھنے کا اتفاق ہُوا، جن میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ کالاباغ ڈیم دریا کا تمام پانی روک لے گا اور ملک سیلاب کی تمام تباہیوں سے محفوظ ہو جائے گا۔کیا یہ درست ہے؟ اور اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو وہ 2010ء کے سیلاب کی شدّت کو کم کرنے میں کیا کردار ادا کرتا؟ اِ ن سوالوں کا درست جواب شاید بہت سے لوگوں کی خوش گمانی کو کم کردے۔ کالا باغ ڈیم دریائے سندھ کے 8لاکھ 97ہزار کیوسک کے سیلابی ریلے میں کمی تو لاتا،مگر ڈیم کے مقام سے نیچے خارج ہونے والا پانی بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہی رہتا ۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ مو جود ہے کہ اس سے سیلاب کی شدت اوراس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات میں کمی لائی جاسکتی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسرے تمام ڈیموں کی طرح کالاباغ ڈیم بھی اونچے درجے کے سیلاب میں تمام پانی کو اپنے اندرذخیرہ نہیں کرسکے گا بلکہ یہ اپنی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت یعنی 6.1ملین ایکڑ فٹ کے مطابق ہی پانی روک سکے گا۔
مگر ایک لحاظ سے سیلاب کا پانی ذخیرہ کرنے میں اِس ڈیم کی افادیت کا ایک منفرد پہلو ہے کیونکہ صرف اس کے ذریعے ہی دریائے کابل میں آنے والا اضافی پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ دریائے کابل کے مذکورہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی دوسری مناسب جگہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ اور اِس لحاظ سے کالا باغ ڈیم ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔دریائے جہلم میں آنے والے سیلاب کو منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے سے ہی کنٹرول کیاجاتا ہے ۔ تاہم دریائے چناب میں آنے والے سیلاب کو روکنے کے لئے ہمارے یہاں کوئی آبی ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ ایک اور تاثر جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے ، وہ یہ ہے کہ سندھ کو منگلا ڈیم سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی اور یہ ڈیم صرف پنجاب کی آبی ضروریات پوری کرتا ہے۔
پانی کے مسائل پر اپنے سندھی دوستوں کی تحریروں کے مطالعہ یا اُن سے گفتگو کے دوران یہ بات بلا کم و کاست سامنے آئی کہ 1967ء میں منگلا ڈیم کی تکمیل کے بعد اس ڈیم سے کبھی بھی سندھ کو پانی مہیا نہیں کیا گیا ۔ اِس تاثر کے جڑ پکڑنے کی ایک وجہ دونوں صوبوںکے درمیان سندھ طاس کے متعلق پایا جانے ولا اختلاف ہے ۔ پنجاب کے آبی ماہرین سندھ طاس کو مجموعی طور پر لیتے ہیں اور وہ اِ س طاس کے دریائوں میں کوئی تخصیص نہیں کرتے۔ جبکہ سندھ کے آبی ماہرین دریائے سندھ کو اس کے معاون دریائوں یعنی جہلم اور چناب سے الگ کرکے دیکھتے ہیں ۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تین مشرقی دریائوں کی بھارت کو حوالگی کے بعد منگلا ڈیم سندھ طاس متبادل منصوبوں کے تحت تعمیر کیا گیا۔ یہ ڈیم بھارت کے پاس چلے جانے والے تین دریائوں کے پانی کی کمی کے ازالے کے لئے بنایا گیا تھا جس سے سندھ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ دریائے سندھ میں اب دریائے جہلم سے پانی شامل نہیں ہوگا کیونکہ منگلا میں ذخیرہ کیا جانے والا پانی صرف پنجاب کے استعمال کے لئے ہوگا۔اور نتیجتاًدریائے سندھ کے پانی میں کمی واقع ہو جائے گی ، یہ شکایت اور زیادہ قابل قبول ہوتی چلی گئی جب سندھ میں لوگوں نے اِس بات پر یقین کرنا شروع کردیا کہ سندھ میں خریف کی فصلوں کی جلد بُوائی کے لئے درکار پانی نہیں مل سکتا کیونکہ اُن ہی دنوں دریائے جہلم میں زیادہ پانی آنا شروع ہوجاتا ہے جسے منگلا ڈیم میں ذخیرہ کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ منگلا ڈیم میں ذخیرہ کیا جانے والا پانی صرف پنجاب میں آبپاشی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ منگلا ڈیم سندھ طاس کے مربوط نظام کا حصہ ہے اور ارسا دریائے جہلم اور دریائے چناب میں پانی کے بہائو کو صوبوں کی طلب کے مطابق کنٹرول کرتا ہے۔
پنجند بیراج سے گزرنے کے بعد دریائے جہلم اور دریائے چناب کا مشترکہ پانی مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے جو گدو بیراج سے صرف 100کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
سندھ کے آبی ماہرین کے شکوے اور شکایت کئی لحاظ سے درست ہوسکتے ہیں مگر ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ40سال کے دوران ہر سال اوسطاً15.8ملین ایکڑ فٹ پانی پنجند بیراج سے گزرکر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔
تازہ ترین