• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
انجینئرنگ کا تعلیمی پس منظر نہ رکھنے والے ایسے آبی ماہرین جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہیں ،اُن کے یہاں ایک اور مفروضے کو قبول علم کی سند حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والی مٹی بہت کم لاگت کے ساتھ آبی ذخیرے سے نکالی جاسکتی ہے۔ یہ مٹی نہ صرف آبی ذخیرے سے باہر نہیں نکالی جارہی ہے بلکہ مزید مٹی بھی ڈیم میں جمع ہونے دی جارہی ہے ،تاکہ تربیلا ڈیم مٹی سے بھر جائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے جواز پیدا کیا جاسکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح دریا میں پانی بہہ رہا ہوتا ہے اُسی طرح کنکر ،مٹّی اور ریت کے ذرات بھی بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ جب دریا کا پانی کسی ڈیم میں پہنچ کر ساکت ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ آنے والی ہر چیزآبی ذخیرے کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے ۔ جوں جوں آبی ذخیرے میں مٹّی اورگاد جمع ہوتی رہتی ہے ، اُس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں بتدریج کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ عام طور پر کسی بھی آبی ذخیرے کی عمر کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اُس کی پانی ذخیرہ کرنے کی 80فیصد صلاحیت مٹی بھر جانے کی وجہ سے کتنے برسوں میں ختم ہوگی۔ تربیلا سے بالائی جانب دریائے سندھ میں گلیشئرز سے پگھل کر آنے والا پانی چٹانوں کو توڑتا ہوااپنے ساتھ بہت زیادہ چٹانی مٹّی اور پتھر لے آتا ہے۔
عالمی بنک نے تربیلا ڈیم کے لئے رقم کی منظوری 1965ء میں دی جبکہ اس پر تعمیراتی کام کا آغاز 1968ء میں ہُوا ۔
اُس وقت تک آبپاشی کے انجینئرز بیراج بناتے وقت کینال ہیڈ ورکس کے سامنے (Under Sluices)تعمیر کیا کرتے تھے تاکہ نہروں میں پانی کے ساتھ بہہ کر جانے والی مٹی اور ریت کی مقدار میں کمی لائی جاسکے۔ اس کے برعکس بڑے ڈیموں میں مٹی اور ریت کو جمع ہونے سے روکنے کے لئے اُس وقت تک کوئی آزمودہ ٹیکنالوجی دستیاب نہیں تھی۔
اگر ہم پاکستان کی جانب سے ڈیموں مں مٹی بھرنے کے عمل کو کنٹرول کرنے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وارسک ڈیم کے حوالے سے ہمار ا تجربہ نہایت خوفناک ہے۔ وارسک ڈیم کے ڈیزائن کے اندر آبی ذخیرے کے اندر جمع ہونے والی مٹّی کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی جس کے نتیجے میں اپنے آپریشن کے پہلے 5برسوں میں ہی آبی ذخیرے کا بہت بڑا حصہ مٹی سے بھر گیا اور 1974ء تک اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بالکل ہی ختم ہوگئی۔ اس ڈیم پر اب صرف پن بجلی پیدا کررہا ہے۔
تربیلا ڈیم کے منصوبہ ساز مٹی بھرنے کے مسئلے سے آگاہ تھے ، چنانچہ انہوں نے دریا کے پانی کے ساتھ آبی ذخیرے میں آنے والی مٹی کو روکنے کے لئے واٹر شید مینجمنٹ کے مروجہ طریقِ کار پر زور دیا۔ نتیجتاً 1971ء میں تربیلا واٹر شید مینجمنٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ تاہم 1977ء میں اس ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے اور ا س کا آپریشن شروع ہونے کے بعد ہی آبی ذخائر میں مٹی کو بھرنے سے روکنے کے لئے دیگر طریقے انجینئروں کے علم میں آئے۔
اُس وقت چین میں واقع سان منگیزیا (Sanmenxia)ڈیم ہی دُنیا بھر میں وہ واحد کامیاب مثال تھا جس کی مدد سے واپڈا کے انجینئرز آبی ذخیرے سے مٹی نکالنے کا طریقہ سیکھ کر اُسے بروئے کار لاسکتے تھے۔ پاکستان میں ڈیموں کے اندر بھرنے والی مٹّی اور گاد کی ساخت چین کے ڈیموں میں آنے والی مٹی سے بہت زیادہ مختلف ہے۔
ہمارے یہاں ڈیموں میں مٹی اور گاد بھرنے کے عمل پر قابو پانے کے لئے واپڈا بین الاقوامی طور پر معروف غیر ملکی کنسلٹنٹس اور اداروں کے اشتراک سے اس بارے میں متعدد تحقیقی مطالعات سے استفادہ کرتاہے۔ تربیلا ڈیم میں مٹی بھرنے کا عمل موسم گرما اور موسم سرما کے دوران مختلف ہے ۔ موسم گرما میں جب پانی کا بہائو بہت زیادہ ہوتا ہے تو اُس وقت مٹی کی بہت زیادہ مقدار آبی ذخیرے میں داخل ہوتی ہے۔ا ور تربیلا جھیل کے اندر مٹی سے بننے والے ڈیلٹا کے اوپر جمع ہوجاتی ہے۔ جب موسم سرما میں آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے تو یہ ڈیلٹا پانی سے باہر نکل آتا ہے۔ اِس دوران آبی ذخیرے میں داخل ہونے والا پانی مٹّی کے اس ڈیلٹا کے اوپر سے گزرتاہے اور اسے آگے کی سمت دھکیلتا ہے ۔ مٹی اور گاد کی مقدار میں اضافہ کی وجہ سے یہ ڈیلٹا ہر سال اوسطاً ایک کلومیٹر ڈیم کی جانب بڑھ رہا ہے ، اور اس وقت یہ ڈیم سے محض 6کلومیٹر کی دوری تک پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ 6عشروں سے جاری تحقیق کے باوجود ڈیموں میں مٹی بھرنے کا عمل ماہرین کو درپیش غالباًسنجیدہ ترین تکنیکی مسئلہ ہے۔
تربیلا ڈیم میں مٹّی بھرنے کے عمل کو روکنے کے لئے ابھی تک پانچ تحقیقی مطالعات کئے جاچکے ہیں ۔تاہم وہ مصنفین جو اِس بارے میںاپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں وہ اپنی گفتگو کے دوران جس تحقیقی مطالعہ کا سب سے زیادہ حوالہ دیتے ہیں ، وہ 1998ء کی ٹیمز رپورٹ ہے جس میں تربیلا کے آبی ذخیرے میں پانی جمع کرنے کی کھوئی ہوئی صلاحیت کو دوبارہ حاصل کرنے اور ڈیم کی عمر میں اضافہ کے لئے تربیلا ڈیم سے مٹی اور گاد کے اخراج کے لئے ایک نظام کی تنصیب / تعمیر کی خاطر ’’ایکشن پلان‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔ ٹیمز کے تحقیقی مطالعات میں درج ذیل اقدامات کی سفارش کی گئی ہے :
(الف)سرنگوں میں پانی داخل ہونے کے مقامات کو بچانے کے لئے زیر آب حفاظتی بند کی تعمیر۔
(ب)مٹی اور گاد کو خارج کرنے/بہائو کے ذریعے باہر نکالنے کے لئے چار نئی سرنگوں کی تعمیر۔
(ج)چار سرنگوں میں پانی داخل ہونے والے مقامات کو مٹّی اور گاد سے صاف رکھنے کے لئے گاد کو کھود کر آبی ذخیرے سے باہر نکالا جائے۔
ٹیمز نے اپنے تحقیقی مطالعات میںجو اقدامات تجویز کئے تھے ، وہ تکنیکی اور اقتصادی لحاظ سے قابل عمل نہیں پائے گئے ۔ نیز واپڈا مرکزی ڈیم کے اندر مزید 4سرنگیں تعمیر کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، کیونکہ مرکزی ڈیم میں پہلے ہی 5سرنگیں موجود ہیں جن میں سے 3پن بجلی پیدا کرنے اور 2آبپاشی کے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ٹیمز نے اپنی رپورٹ میں بحالی کے جن اقدامات کی سفارش کی تھی ، ان کا نہایت احتیاط اور باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اپنے اہم ترین آبی ذخیرے کے معاملے میں غیر آزمودہ حل آزمانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ٹیمز کی رپورٹ کو نہ تو داخل ِ دفتر کیا گیا اور نہ ہی اُسے متروک کیا گیا تاہم یہ بات ضروری سمجھی گئی کہ اس رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئیں ، دیگر ماہرین بھی اُن کا از سرنو جائزہ لیں۔ یہ ایک سود مند فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ 2007ء اور پھر 2013ء میں دیگر ماہرین نے جو تحقیقی مطالعات کئے ، اُن کے نتائج سے ہمارے خدشات کو تقویت ملی اور وہ درست ثابت ہوئے۔
2013ء میں موٹ میکڈونلڈ کی جانب سے کئے گئے حالیہ تحقیقی مطالعات کے مطابق تربیلا ڈیم میں روزانہ 5لاکھ ٹن مٹی آتی ہے یعنی ڈیم میں ہر سال 200ملین ٹن مٹی جمع ہوتی ہے۔ موٹ میکڈونلڈ کے انجینئرز کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنے بڑے معاملے سے نمٹنے کے لئے دُنیا بھر میں دوطریقے موجود ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اس گاد کو کھود کو باہر نکالا جائے اور دوسرا یہ کہ سیلاب کے دنوں میں دائیں کنارے پر واقع زیریں سطح پر تعمیر کئے گئے اخراجی دہانوں کو کھول کر مٹی اور گاد کو پانی کے ساتھ آبی ذخیرے سے باہر نکالا جائے۔بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں طریقے قابل عمل نہیں ہیں ، کیونکہ مٹی کو کھود کر باہر نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ڈیم کے دونوں کناروں پر ایسی کوئی جگہ موجود نہیں ہے جہاں کُھدائی کے بعد اِس مٹی کو منتقل کیا جائے۔ علاوہ ازیں اس کام پر بہت زیادہ لاگت آئے گی۔ آبی ذخیرے میں صرف ایک دن کے دوران آنے والی مٹی کو منتقل کرنے کے لئے ایک گھنٹے کے دوران 20ٹن صلاحیت کے ایک ہزار ٹرک درکار ہوں گے ۔ اسی طرح چار نئی سرنگیں تعمیر کرنے کے بعد پانی کے ساتھ مٹّی کا اخراج بھی دو وجوہات کے باعث پُر خطر عمل ہے۔ ایک وجہ اور بھی ہے ۔ ایسا کرنے کے لئے پورے ایک ماہ کے لئے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائنیں بند کرنا پڑیں گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ڈیم سے ایک ماہ کے لئے بجلی پیدا نہیں ہوگی۔ دوسری وجہ ممکنہ طور پر بہت مضر ہوسکتی ہے ۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے تربیلا ڈیم سے پانی کے ساتھ بہائی جانے والی مٹی زیریں جانب واقع غازی بیراج کی جھیل کو مٹی سے بھر دے گی اوربجلی کی پیداوار کے لئے یہ زیادہ خطرناک بات ہوگی۔
ٹیمز کی رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات پر مذکورہ تشویش کے باعث عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اس وقت واپڈا تربیلا کے آبی ذخیرے کے آپریشن کو اس طرح چلا رہا ہے کہ مٹی کے ڈیلٹا کی ڈیم کی جانب بڑھنے کی رفتار کو کم کیا جاسکے۔ بجلی پیدا کرنے کی ٹربائنوں کو محفوظ بنانے کے لئے سرنگ نمبر تین ، چار اور پانچ میں پانی داخل ہونے کے مقامات کو بلند کیا جارہا ہے۔ یہ تعمیراتی عمل اس وقت تکمیل کے مختلف مراحل میں ہے ۔ تربیلا ڈیم سے بالائی جانب دیا مربھاشا ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر سے بھی تربیلا کے آبی ذخیرے میں آنے والی مٹی کی مقدار میں کمی واقع ہوگی اور اس کی عمر میں مزید 45سال کا اضافہ ہوجائے گا۔
میں نے یہ معاملہ اِس قدر وضاحت کے ساتھ اس لئے بیان کیا ہے کہ ایک درویش صفت ، باکمال شخصیت جناب جی این مغل سمیت سندھ کے بعض انتہائی باعلم کالم نگاروں اور مصنّفین نے میرے ساتھ اپنی گفتگو میں ٹیمز رپورٹ کا حوالہ دیا تھا ، کیونکہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ واپڈا ٹیمز کی رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہا؟
تازہ ترین