• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
زیرِ نظر قسط میں جن تصورات کے بارے میں حقیقی صورت ِ حال واضح کی جائے گی ، وہ درج ذیل ہیں :
۔۔۔۔کالاباغ ڈیم منصوبہ تکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں ہے ۔ اس منصوبے کی عمر بہت کم ہوگی کیونکہ منصوبے کے موجودہ ڈیزائن کی وجہ سے مٹی آبی ذخیرے میں آتی رہے گی اور بڑی کم مدت میں مٹی سے بھر جائے گا۔
ایک اور تصوّر جو وادیٔ پشاور میں مقیم لوگوں کے خوف کی بنیاد ہے، وہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ اور اس سے ملحقّہ علاقے زیر آب آجائیں گے۔
کالاباغ ڈیم کے بارے میں بحث جذباتی طور پر اِس قدر شدیدہے کہ بہت سے لوگ جو اُن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جو مبینہ طور پر ڈیم کی تعمیر کی صورت میں شدید متاثر ہوں گے، ایک ایسے شخص کی رائے پر بھی یقین کر بیٹھتے ہیں جس کی اہلیت اِس بارے میں اُن ماہرین سے کہیں کم ہوتی ہے جو ڈیم کی تعمیر کے باعث کسی خاص علاقے میں پر مرتب ہونے والے ضرر رساں اثرات کے بارے میں ہمیں بہتر طور پر آگاہ کرسکتے ہیں۔
کالا باغ کنسلٹنٹس اِس بارے میں تحقیقی مطالعات کررہے تھے کہ اگر دریائے سندھ میں 1929ء کی شدت کا سیلاب آجائے تو کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کیا ہوگی۔ کالاباغ ڈیم پروجیکٹ پر کام کرنے والے چھوٹی اسامیوں پر تعینات اہل کاراکوڑہ خٹک کے قرب و جوار میں واقع پہاڑوں پر اِس مقصد کے لئے نشانات لگا رہے تھے کہ تاریخی لحاظ سے شدید ترین سیلاب آنے کی صورت میں حفاظتی بند کتنی بلندی تک تعمیر کئے جائیں ۔ اکوڑہ خٹک کے باشندے تشویش بھری نظروں سے ان اہل کاروں کو چھوٹی پہاڑیوں پر نشانات لگاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جب انہوں نے ان نشانات کے بارے میں اہل کاروں سے استفسار کیا تو انہیں مبینہ طور پریہ غلط جواب سننے کو ملا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے اِس علاقے میں پانی کی سطح اِن نشانات تک پہنچ جائے گی۔ کوئی شخص اِس بارے میں نہیں جانتا کہ نچلی اسامیوں پر کام کرنے والے ان اہلکاروں اور مزدوروں نے اِ س علاقے کے لوگوں سے دانستہ طورپر مذاقاً یہ بات کہی تھی یا انہیں خود اس بارے میں درست طور پر علم نہیں تھا۔ تاہم یہ ضرور ہوا کہ اُن کی کہی ہوئی بات نے اتنا خوف و ہراس پیدا کیا کہ اُس علاقے کے لوگ وہاں سے کوسوں دور پنجاب میں تعمیر کئے جانے والے مستقبل کے اِس منصوبے سے پیدا ہونے والے مضر اثرات کے بارے میں احتجاج کرنے کے لئے جمع ہوگئے ۔ جناب بشیر اے ملک نے اپنی کتاب ’’پانی بچائو، پاکستان بچائو‘‘ میںاِس واقعے کا ذکر ذرا مختلف انداز میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’پروجیکٹ کنسلٹنٹ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب فیلڈ سروے اسٹاف دریائے کابل کے کراس سیکشن کے لئے سطح زمین کی نشاندہی کی غرض سے بُرجیاں لگا رہا تھا ۔ بعض مقامی افراد ، جن کی اکثریت کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا ، ڈیم کی تعمیر کے خلاف تھے ۔ اُن میں سے کچھ لوگوں نے بُرجی کے نشانات کو اُن کی اصل جگہ سے ہٹا کر بلند مقامات پر گھروں کی چھتوں پر منتقل کردیا تاکہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ کالاباغ کے آبی ذخیرے سے اُن کے گھر ڈوب جائیں گے ۔ کنسلٹنٹ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر قطعی طور پر غلط اور من گھڑت ہے۔‘‘
حقیقی صورت یہ ہے کہ کالا باغ کی جھیل میں پانی بھرنے کا اثر نوشہرہ سے 10میل زیریں جانب تک محدود ہوگا ۔ اِس بارے میں کمپیوٹرکی مدد سے سائنٹیفک اسٹڈی کی گئی۔ پاکستان میں بنائے گئے ماڈل پروجیکٹ نے بھی اِس اسٹڈی کے نتائج کی توثیق کی ۔ا سٹڈی اور فزیکل ماڈل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کالا باغ کے آبی ذخیرے میں 100سال تک مٹّی اور گاد جمع ہوتی رہے ، پھر بھی اگست 1929ء کی شدّت جیسے تاریخی سیلاب کے نتیجے میں نوشہرہ متاثر نہیں ہوگا ۔اِس کمپیوٹر سٹڈی میں تربیلا جھیل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی وہ سہولت شامل نہیں ہے ، جو اب حقیقتاً سیلاب کی شدّت میں کمی لانے کے لئے مؤثر طور پر استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ان مطالعات کا چینی ماہر ڈاکٹر لیان ژن (Dr. Lianzhen) اور بعد ازاں امریکی ماہر ڈاکٹر کینیڈی کی سربراہی میں بین الاقوامی ماہرین کے پینل نے از سر نو جائزہ لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل اس پینل کی نامزدگی کے لئے صوبہ سرحد کی حکومت نے 1987ء میں وزارت ِ پانی و بجلی کو درخواست کی تھی ،چینی ماہر اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل نے اپنی جائزہ رپورٹ میں مذکورہ مطالعات کے نتائج کی تائید کی۔اس نے رپورٹ میں بیان کیا کہ اس تحقیقی مطالعہ کے نتائج نئے نہیں ہیں ۔ جب کالا باغ ڈیم کے آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کم ہو کر 825فٹ کی بلندی پر ہوگی تو دریائے سندھ کی گھاٹی بالکل اسی طرح کام کرے گی جیسا کہ اب کرتی ہے۔ آبی ذخیرے میں پانی کی بھرائی کے وقت جو مٹّی اور گاد جمع ہوگی ، جب پانی اُترنے پر دریا کا پانی اِس گھاٹی میں تیزی کے ساتھ گزرے گا تو جمع ہونے والی مٹّی اور گاد اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔ تیزی کے ساتھ گزرتا یہ پانی اُس مٹی کو بھی بہا لے جائے گا جو اِس تنگ گھاٹی کے بالائی علاقوں میں اُس وقت جمع ہوگی جب آبی ذخیرے میں پانی کی سطح اپنی انتہائی بلندی پر ہوگی۔ 20اگست 1991ء کو چیئرمین واپڈا نے اُس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ کے نام تحریر اپنے مکتوب کے ذریعے بین الاقوامی ماہرین کے پینل کی جائزہ رپورٹ ارسال کی اور اس کے ذریعے 1988ء میں بنائی گئی رپورٹ کی توثیق چاہی۔ تاہم اُن کی جانب سے اِس بارے میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کالاباغ ڈیم کے مخالفین اچانک ہی اُن انجینئروں کی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورت ِ حال پر یقین کرنا شروع کر دیں گے جنہوں نے کالاباغ ڈیم منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ ایک دشوار صورتحال ہے تاہم اگر خیبر پختونخوا کو فزیبلٹی رپورٹ پر نظر ثانی کے لئے مشاورتی ادارے کی خدمات کے لئے آجر کا کردار سونپا جائے تو کم از کم اُس کا یہ خدشہ دور ہوسکتا ہے کہ واپڈا ایک آجر کے طور پر کنسلٹنٹ پر اثر انداز ہورہا ہے۔کالاباغ ڈیم کے بارے میں بعض لوگوں یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ تیکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔ اس منصوبے کی عمر بہت کم ہوگی کیونکہ منصوبے کے موجودہ ڈیزائن کی وجہ سے مٹّی آبی ذخیرے میں آتی رہے گی اور
کالا باغ ڈیم کے مخالفین اپنے دلائل میں اکثر اس منصوبے کی رپورٹ کے ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہیں ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’کوئی بھی آبی ذخیرہ اس روز سے ہی ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے جس روز اس کی تعمیر مکمل ہوتی ہے۔‘‘ اُن کے خیال کے مطابق کالاباغ ڈیم کی مرکزی رپورٹ کے صفحہ نمبر 4.11کے پیراگراف 4.55سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ 90ملین ایکڑ فٹ پانی آنے کی صورت میں کالاباغ ڈیم ریزروائر کے اٹک والے حصے میں جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 3.5ملین ایکڑ فٹ ہے ، وہاں مٹّی کی بہت زیادہ مقدار جمع ہوجائے گی۔ اسی بنیاد پر وہ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم میں پانی کی آمد اور اسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی شرح دُنیا میں سب سے کم ہے ، چنانچہ یہ بہت تیزی کے ساتھ مٹّی سے بھر جائے گا۔ وہ اِس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ دریائے کابل کا گدلا پانی ہرسال 110ملین ٹن مٹّی اپنے ساتھ کالا باغ کے آبی ذخیرے میں لائے گا۔ علاوہ ازیں تربیلا کے آبی ذخیرے سے بھی ہر سال 0.2ملین ایکڑ فٹ مٹی کالاباغ ڈیم میں آئے گی۔
اگر کنسلٹنٹ کی رپورٹ سے صرف ایک سطر کا حوالہ دیا جائے گا تو لامحالہ اُس سے غلط تاثر قائم ہوگا ۔ اگر کنسلٹنٹ کی رپورٹ کے صفحہ نمبر 4.11کے پیرا گراف 4.55کا مکمل حوالہ پیش کیا جائے تو صورت ِ حال کی وضاحت ہوجاتی ہے اور اس بارے میں پایا جانے والا غلط تاثر بھی دور ہوجاتا ہے۔ یہ مکمل پیرا گراف اِ س طرح سے ہے کہ :
’’مٹی کی وجہ سے کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں واقع ہونے والی کمی کی شرح ابتدائی طور پر بہت زیادہ نہیں ہوگی کیونکہ تربیلا ڈیم دریائے سندھ کے بالائی علاقوں سے آنے والی مٹی کی زیادہ تر مقدار روک لے گا۔ ڈیم میں پانی کی سطح 50دنوں کے لئے 825فٹ کی سطح پر ہوگی۔ (بجلی پیدا کرنے کے لئے آبی ذخیرے میں یہ سب سے نچلی سطح ہوگی) اِسی دوران ڈیم سے پانی کے ساتھ مٹی کو باہر خارج کیا جائے گا۔ اس عمل کے ذریعے اِس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں پیدا ہونے والی کمی کی شرح تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے میں واقع ہونے والی موجودہ کمی کی شرح کے مقابلے میں تھوڑی ہو۔‘‘
علاوہ ازیں کالاباغ ڈیم کے پروجیکٹ منیجر اے پی فریزر اپنے خط کے پیراگراف 6 میں بیان کرتے ہیں کہ ’’اِس منصوبے کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اِس کے ڈیزائن میں یہ خاصیت موجود ہے کہ ہر سال جب آبی ذخیرے میں پانی درمیانی سطح پرآجائے تو پانی کے ساتھ مٹّی کو ڈیم سے باہر خارج کیا جاسکتا ہے ، تاکہ اِ س بات کو یقینی بنایا جائے کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کئی نسلوں تک موجود رہے۔‘‘
بین الاقوامی ماہرین جنہوں نے کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن تیار کیا ہے وہ یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کے لئے دریائے سندھ ہر 90میل طویل اور تنگ پہاڑی گھاٹی ہونے کی وجہ سے نسبتاً ایک کشادہ علاقے میں واقع وسیع آبی ذخیرے کے مقابلے میں اِس ڈیم سے مٹی خارج کرنے کا مؤثر اور فعال نظام تعمیر کرنے کے لئے ایک بے مثال سہولت موجود ہے۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کے منفرد محل و قوع کی بدولت ڈیم سے مٹی باہر نکالنے کے بہترین امکانات موجود ہیں ۔ کالاباغ ڈیم کا Orificeسپل وے پر آبی ذخیرے میں پانی کی کم سے کم سطح یعنی 825فٹ سے بھی 40فٹ نیچے واقع ہے۔ ڈیم میں پانی جمع کرنے کے قواعد و ضوابط میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ جون کے پورے مہینے اور جولائی کی 20تاریخ تک آبی ذخیرے میں پانی کی کم سے کم سطح 825فٹ پر برقرار رکھی جائے گی۔ جس کے باعث یہ سہولت حاصل رہے گی کہ اپنے ساتھ مٹی کی بہت زیادہ مقدار لانے والے سیلاب کو ڈیم سے براہ راست گزار ا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ باقی دنوں میں آبی ذخیرے میں جو مٹی جمع ہوگی اُسے بھی خارج کیا جاسکے گا۔ کالاباغ ڈیم کے یہ خدو خال اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں مٹی کی بہت کم مقدار جمع ہوگی اور اِس وجہ سے کالاباغ کے آبی ذخیرے کی عمر طویل ہوگی ۔
تازہ ترین