• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور تصور جسے پشاور ، چارسدہ ، نوشہرہ اور مردان کے اضلاع اور ان کے قرب و جوار کے علاقوں میں قبول عام کی سند کا درجہ حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے سیم ا ور تھور کا مسئلہ پیدا ہوگا اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجائے گی جس سے پشاور کی زرخیز وادی بُری طرح متاثر ہوگی۔
پانی کا ہر منصوبہ تہلکہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بھی ایک ایسا ہی ترقیاتی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ منفی تصورات نے مخصوص جغرافیائی علاقوں میں عام لوگوں کے ذہنوں کو بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ اِسی طرح کا ایک تصور یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کی وجہ سے سیم کا مسئلہ پیدا ہوگا اور پشاور کی وادی میں زرخیز زمین تھور کا شکار ہوجائے گی۔ یہ معاملہ اُس وقت ابھر کر سامنے آیا جب صوبہ خیبر پختونخوا کے پختون علاقوں میں مقبول ایک اہم سیاسی جماعت نے کالاباغ ڈیم پر ایک دستاویز شائع کی اور اس مسئلے سمیت کالاباغ ڈیم کے کنسلٹنٹس کے اخذ کئے گئے نتائج کو چیلنج کیا۔سیاسی جماعت کی دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر پانی کے راستے میں کوئی رکاوٹ آئے تو ا س کی رفتار کم پڑ جاتی ہے۔ جب اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو دریا اپنی گزرگاہ میں زیادہ مٹّی جمع کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دریائی گزرگاہ کی سطح بلند ہوتی جاتی ہے۔ آخر کار دریا کی گزرگاہ کی سطح ایک ایسی حد تک بلند ہوجاتی ہے کہ یہ کم و بیش آبی ذخیرے کی سطح کے برابر ہوجاتی ہے۔ایسی صورت میں چارسدہ کی حصّارہ ڈرین اور مردان میں دریائے کلپانی کے اخراجی دھانے ، جن کے ذریعے ان علاقوں کے پانی کا دریائے کابل میں نکاس ہوتا ہے ، بند ہوجائیں گے۔ اسی طرح دریائے کابل کی گزرگاہ کی سطح بلند ہونے پر مردان اورصوابی میں اسکارپ سسٹم میں پانی اُلٹی سمت میں بہنے لگے گا جو علاقے میں تباہی کا باعث بنے گا۔ ان منصوبوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کئے گئے ہیں ۔ اِ ن منصوبوں کی مدد سے سیم اور تھور کے شکار ایک بہت بڑے رقبے کو بحال کیا گیا ہے۔ کالاباغ ڈیم میں درمیانی سطح سے پانی کے ساتھ مٹی خارج کرنے کیلئے ایک غلط ہائیڈرالک ڈیزائن کی وجہ سے آبی ذخیرے میں بڑی تیزی کے ساتھ مٹّی بھر جائے گی ، پانی اُلٹی سمت میں بہنے لگے گا اور پشاور کی پوری زرخیز وادی زیر آب آجائے گی۔ اگر یہ علاقہ پوری طرح زیر آب نہ بھی آیا ، تب بھی اراضی سیم کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہوجائے گی۔‘‘یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی معیار کے مشاورتی اداروں اور ماہرین نے کالاباغ ڈیم کی پروجیکٹ پلاننگ رپورٹس کا از سرِ نو جائزہ لیا ہے۔ اِن تحقیقی رپورٹس کے مطابق کالاباغ ڈیم کے آبی ذخیرے میںجب پانی کی سطح 915فٹ کی بلندی پر ہوگی تو بالائی جانب اس کا پھیلائو نوشہرہ سے زیریں جانب 10میل پہلے تک ہوگا۔ اس حوالے سے تفصیلاً تحقیقی مطالعات کئے گئے ہیں کہ ایسی صورت میں پشاور کی وادی سے پانی کا دریائے کابل میں نکاس بلا رکاوٹ جاری رہے گا جبکہ کالاباغ ڈیم کا پانی کی نکاسی کے نظام پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا۔
علاوہ ازیں مردان ، پبّی اور صوابی کے علاقوں میں زمین کی سب سے نچلی سطح سمندر کی سطح سے بالترتیب 970، 960اور ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی بلند ترین سطح 915فٹ ہے۔ آبی ذخیرے میں پانی کی یہ سطح بھی پورے سال کے دوران ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں صرف تین سے چار ہفتے برقرار رہے گی ۔ بعد ازاں آبی ذخیرے میں پانی کی سطح گر جائیگی کیونکہ ربیع کی فصلوں اور بجلی کی پیداوار کیلئے پانی ڈیم سے خارج کیا جائیگا۔ بالآخر جون کے اوائل میں پانی کی سطح 825فٹ کے ڈیڈ لیول تک پہنچ جائیگی۔ آبی ذخیرے کے آپریشن کے مذکورہ طریقہ کار کی وجہ سے پانی کے نکاس کا نظام کسی رکاوٹ کا شکار نہیں ہوگا اور نہ ہی مردان ، پبّی اور صوابی کے علاقوں میں سیم اور تھور کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ کالاباغ ڈیم کی رپورٹ پر نظر ثانی کرنیو الے اداروں اور ماہرین نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ مردان سکارپ کے بڑے نالوں کے اخراجی دھانے کالاباغ ڈیم میں پانی کی انتہائی سطح یعنی 915فٹ کی نسبت زیادہ اونچائی پر واقع ہیں جبکہ دریائے کابل اور کلپانی خواڑ (دریا) میں بھی پانی الٹی سمت نہیں چڑھے گا۔ نکاسی آب کیلئے یہ سب کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا کام سرانجام دیتے رہیں گے۔گویا دریائے کابل کے دائیں یا بائیں کنارے سے پانی کے نکاس میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تربیلا کا آبی ذخیرہ وادیٔ پشاور سے 600فٹ بلند ہے اور اس کی وجہ سے گزشتہ40سال کے دوران علاقے میں سیم کا مسئلہ سامنے نہیں آیا تو پھر کس طرح کالاباغ ڈیم کا آبی ذخیرہ ، جو عمومی طور پر نوشہرہ کے مقابلے میں 25فٹ کم بلندی پر ہوگا ، علاقے میں سیم کا مسئلہ بن سکتا ہے۔پشاور کی وادی پر کالا باغ کے منفی اثرات سے متعلق موجودہ تصوّر موجودہ خیبر پختونخوا اور اُس وقت کے صوبہ سرحد کی حکومت کے مؤقف سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں تاثر وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ پہلے پہل کالاباغ ڈیم کے بارے میں جوش سے مامور یہ جذبہ پایا جاتا تھا کہ اِس منصوبے کے دائیں جانب آبپاشی کیلئے نہر نکالنے کی زبردست گنجائش موجود ہے جس سے بروقت صوبے میں وسیع اراضی سیراب ہوگی ۔ یہ جوش اُس وقت ماند پڑ گیا جب نہر کے تکنیکی اعتبار سے قابل عمل ہونے پر سوالات اٹھائے گئے ۔یہ بات اس وقت رونما ہوئی جب کنسلٹنٹس نے اپنی پروجیکٹ رپورٹ میں ڈیم سے نکلنے والی نہروں کے تکنیکی اور اقتصادی طور پر قابل عمل ہونے کے بارے میں سوالات کھڑے کردیئے اور واپڈا نے اُن کے اخذ کردہ نتائج سے اتفاق کر لیا۔ سیلاب کے دوران پانی کی بلند ترین سطح کے حوالے سے خیبر پختونخوا کی حکومت کی تشویش دور کرنے کیلئے کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹس نے تجویز پیش کی کہ ڈیم کی اونچائی 5فٹ کم کردی جائے اور ا س میں پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی سطح 925فٹ سے کم کرکے 915فٹ کردی جائے۔اور پھر واپڈا نے 1929ء جیسے تاریخی طور پر شدید سیلاب سے نوشہرہ کو محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی پشتوں کی تعمیر کے معاملے کو غلط انداز میں نمٹایا۔نتیجتاً خیبر پختونخوا میں یہ سمجھا جانے لگا کہ اس منصوبے سے صوبے کو اقتصادی طور پر فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔
مذکورہ پس منظر کیساتھ1989ء میں کالاباغ ڈیم کا پی سی II- سی ڈی ڈبلیو پی /ایکنک کے اجلاس میں زیر بحث لایا گیا ۔ اس پی سی II- کی مشروط منظوری دی گئی جبکہ وزارت ِ پانی و بجلی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ خیبر پختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات کے بارے میں رپوٹ پیش کرے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اِس بات کی یقین دہانی چاہتی تھی کہ ڈیم کی اونچائی میں مجوزّہ کمی کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ دور ہوجائے گا ، زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہوگی اور پانی کے قدرتی نکاس پر بُرے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ وزارت ِ پانی و بجلی نے اس وقت کے چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زاہد علی اکبر کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی۔ مارچ اور دسمبر 1990 ء میں اس کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے۔ صوبہ سرحد کے نمائندگان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مزید تحقیقی مطالعات کے باعث پہلے سے کئے گئے مطالعات کے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اُن کی حکومت ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے آبادی ، اراضی اور دریا کی گزرگاہ میں مٹی بھرنے جیسے منفی اثرات کے بارے میں جانتی ہے۔ صوبہ سرحد کے نمائندگان ، جو غالباً ان امور پر از خود فیصلہ کرنے سے پہلو تہی کررہے تھے ، اُنہوں نے ایک بیان جاری کیا ’’اِس (کالاباغ ڈیم) منصوبے پر فیصلہ صوبائی حکومت کو کرنا ہے کہ (یہاں لفظ ’’کہ‘‘ غالباً آیا کہ‘‘ کے طور پر استعمال ہوا ہے) وہ اِن قربانیوں کے باوجود ڈیم تعمیر کرنا چاہیں گے یا نہیں‘‘ اُنہیں کالاباغ ڈیم سے نہ توآبپاشی کیلئے پانی مہیا ہونا تھا اور نہ ہی سیلاب سے بچائو میں مدد ملنی تھی۔ اُس وقت کی صوبہ سرحد کی حکومت کے نمائندگان کے اِن تاثرات کے بعد چیئرمین واپڈا نے اپنی رپورٹ وزارت ِ پانی و بجلی کو ارسال کردی کہ مذکورہ معاملات پر مزید تحقیقی مطالعات کرانا ، اِس کمیٹی کے دائرہ اختیارت میں نہیںہے ، لہٰذا یہ معاملہ ختم سمجھا جائے۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا کی حکومت کالاباغ ڈیم کے تکنیکی طور پر قابل عمل ہونے کو چیلنج کرتی رہی۔
تازہ ترین