• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
کالاباغ ڈیم کے بارے میں ایک اور واہمہ جسے بعض لوگ سچ تصور کرتے ہیں ، یہ ہے کہ واپڈا نے آجر کی حیثیت سے اِس منصوبے کے بین الاقوامی کنسلٹنٹس سے مرضی کے نتائج حاصل کئے۔
کسی مجوزہ ڈیم کی انجینئرنگ اسٹڈی کیلئے مختلف مقامات پر دریا میں پانی کے بہائو اور مختلف موسموں میں پانی کے بہائو میں تغیر سے متعلق مطالعات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے مقام پر دریا کے نیچے موجود چٹانوں کی ساخت، زمین کے اندر پانی جذب کرنے کی خصوصیات ،زیر زمین مٹی کی قوت اور دریا ئی پانی کے ساتھ مٹی جمع ہونے اور پھر اُس کے اخراج کے اسلوب کا بنظرِعمیق جائزہ لینا پڑتا ہے۔ یہ تحقیقی مطالعات اور اعدادوشمار کی جمع بندی، کئی برسوں پر محیط کٹھن اور صبرآزما کام ہے۔
ڈیم کی تعمیر کیلئے عموماً پوسٹ گریجویٹ تعلیمی قابلیت اور کئی دہائیوں پر مشتمل تجربے کے حامل انجینئرز کا کنسلٹنٹ کے طور پر تقرر کیا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے نیچے دیئے گئے ٹیبل میں واضح کیا گیا ہے کہ تاریخی طور پر کِن کنسلٹنٹس خصوصاًغیرملکی ماہرین نے اس منصوبے کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں تحقیقی مطالعات کئے:
کالاباغ ڈیم پروجیکٹ سٹڈیز/ رپورٹس
اسٹڈی رپورٹ ایجنسی سال
ابتدائی رپورٹ ٹپٹن اینڈ ہِل 1953
ابتدائی فزیبلیٹی رپورٹ چیس ٹی مین 1966
مغربی پاکستان کے پانی اور بجلی کے بارے میںا سٹڈی ورلڈ بنک اسٹڈی گروپ 1967
فزیبلیٹی رپورٹ واپڈا/ ہارزا 1972
نظرثانی شدہ فزیبلیٹی رپورٹ اے سی ای لمیٹڈ 1975
فزیبلیٹی رپورٹ کا جائزہ بورڈ آف کنسلٹنٹس 1975
اپریزل رپورٹ ورلڈ بنک 1980
پروجیکٹ پلاننگ رپورٹ کالاباغ کنسلٹنٹس 1984
تفصیلی ڈیزائن کالاباغ کنسلٹنٹس1985
ڈیزائن ری فائنمنٹ اور ٹینڈر دستاویزات کالاباغ کنسلٹنٹس 1988
مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے نامور ماہرین نے کالاباغ ڈیم پروجیکٹ کے ڈیزائن پر نظرثانی کی۔اِن ماہرین کی تفصیل درج ذیل ہے:
کالاباغ ڈیم پروجیکٹ ۔ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل
-1 پروجیکٹ کا مجموعی ڈیزائن ۔ 1983
پیرے لوندے فرانس
ڈاکٹر جی لومبارڈی سوئٹزر لینڈ
ڈاکٹر جیمز آئی شیرارڈ امریکہ
جون لووی سوئم امریکہ
ڈاکٹر کلاز ڈبلیو جون جرمنی
جون پرمیکین امریکہ
-2پروجیکٹ پر نظر ثانی ۔ مئی 1984
اصغر علی عابدی پاکستان
شیخ منظور احمد پاکستان
شاہنواز خان پاکستان
-3 نوشہرہ کی وادی میں سیلاب کے بارے میں جائزہ
پہلاجائزہ جولائی 1987
ڈاکٹر ڈنگ لیان ژن چین
دوسرا جائزہ دسمبر 1987
ڈاکٹر جون ایف کینیڈی امریکہ
ڈاکٹر خالد محمود امریکہ
ڈاکٹر روڈنی وائٹ برطانیہ
کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کے بارے میں ورلڈ بنک، حکومتِ پاکستان اور واپڈا کے ماہرین کی رپورٹس
ورلڈ بنک رپورٹ نمبر عنوان ماہر تاریخ اجراء
ڈبلیو بی آر1- ہائیڈرالک ماڈلنگ کے بارے میں کالاباغ کنسلٹنٹس کی تجاویز کا جائزہ پروفیسر ای ایف موسون یی جون 1983
ڈبلیو بی آر2- ابتدائی فلڈ ہائیڈرالوجی کا جائزہ ایف اے برٹی مئی 1983
ڈبلیو بی آر3-کالاباغ ڈیم پروجیکٹ اسٹڈی کا جائزہ ،(ٹی ایم 15 اور ٹی ایم 4 )ایف اے سام جلجون 1983
ڈبلیو بی آر4- آبی ذخیرے میں مٹی بھرنے کے بارے میں ابتدائی رپورٹ کا جائزہ(ٹی ایم 12) کے محمود جون 1983
ڈبلیو بی آر5- کالاباغ ڈیم پروجیکٹ ۔ ٹیکنیکل میمورنڈم 15 کاجائزہ ڈی کنگ جولائی 1983
ڈبلیو بی آر6- ہائیڈرالک ڈیزائن اور ہائیڈرالک اسٹرکچرز کے ماڈل ٹیسٹ کی رپورٹ جے ایچ ڈورنا جولائی 1984
ڈبلیو بی آر7- کابینہ کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے معاملات کا جائزہ ایس ایس کرمانی
ورلڈ بنک مارچ 1985
ڈبلیو بی آر8- سول ورکس کی مختلف کنٹریکٹ پیکجز میں تقسیم کا جائزہ کے ایس سمتھ جون 1985
ڈبلیو بی آر9- ازسرِنو آباد کاری کی تیاری۔ مشن رپورٹ ایم ایم سرین جولائی 1985
ڈبلیو بی آر10- مٹی بھرنے اور ہائیڈرالک کے مطالعات کاجائزہ مشن ڈاکٹر کے محمود نومبر 1985 اور
جنوری 1986
ڈبلیو بی آر11- سول ورکس کی مختلف کنٹریکٹ پیکجزمیں تقسیم کا جائزہ بیرٹ کنسلٹنٹس جولائی 1986
ڈبلیو بی آر12- پاور اسٹیشن یونٹ بے کے ڈائنامک تجزیہ کا جائزہ ایچ بولٹن سیڈ مارچ 1987
ڈبلیو بی آر13- مٹی بھرنے کے بارے میں ریاضیاتی ماڈل اسٹڈیز کا جائزہ ڈاکٹر ڈنگ لیاژن جولائی 1987
ڈبلیو بی آر14- دریا کی تہہ میں ریت کی پرتوں کے پانی میں شامل ہونے کی صلاحیت اور سیوالک کی بجری کی تہہ کے بارے میں کی گئی تحقیقات کا جائزہ ایچ بولٹن سیڈ جولائی 1987
ڈبلیو بی آر15- مٹی بھرنے کے بارے میں جائزہ لینے والے پینل کی رپورٹ
ڈاکٹر ایف جے کینیڈی،ڈاکٹر خالد محمود،ڈاکٹر ڈبلیو آر وائٹدسمبر 1987
ڈبلیو اے پی1- آبپاشی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مجوزہ کالاباغ ڈیم سے زیریں جانب پانی کے اخراج کے متبادل طریق،واپڈا (ڈبلیو آر ایم ڈی) مارچ 1983، ڈبلیو اے پی2- ڈرافٹ ری سیٹلمنٹ ایکشن پلان واپڈا جون 1985
ڈبلیو اے پی 3- ڈیم کی تعمیر کے دوران اور بعد ازاں آپریشن کے دوران آبپاشی کیلئے پانی کے اخراج کی صلاحیت (ڈی آر سی16- )
واپڈا (ڈی آر سی) اگست 1985
ڈبلیو اے پی4- واپڈا/حکومتِ پاکستان کے لئے عالمی بنک کے کنسلٹنٹ کی ری سیٹلمنٹ رپورٹ ڈاکٹر آرٹ ہنسن اپریل 1985
اس بات کا ہمیشہ امکان موجود ہوتا ہے کہ مقامی انجینئرز بڑے منصوبوں کیلئے درکار تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے حامل نہ ہوں، چنانچہ اِن منصوبوں کیلئے کنسلٹنٹ کا تقرر بین الاقوامی مسابقتی بولی(International Competitive Bidding) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر معروف یہ ماہرین منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کے مطالعات(فزیبلیٹی) اور تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کے دوران انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں،تاکہ اس ضمن میں غلطی کا کوئی امکان نہ رہے ۔ پانی کے بڑے منصوبوں کا ڈیزائن بناتے وقت انجینئرز اور مشاورتی اداروں کی ساکھ دائو پر لگی ہوتی ہے، اِس لئے کوئی بھی ماہرکسی پراجیکٹ کے ڈیزائن کے حوالے سے معمولی خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا۔
بڑے منصوبوں کیلئے جن مشاورتی اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، وہ اپنی ساکھ اور شہرت کے بارے میں غیرمعمولی طور پر محتاط ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایسے عمل اور کام کی نہ تو سفارش کرتے ہیں اور نہ ہی منظوری دیتے ہیں جس سے اُن کی شہرت، پیشہ وارانہ اہلیت اور دیانتداری پر کوئی آنچ آئے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ منصوبے پر عملدرآمد کے ساتھ اِن مشاورتی اداروں کا براہ راست مالی مفاد وابستہ نہیں ہوتا کیونکہ ہر منصوبے کیلئے ڈیزائنر یعنی کنسلٹنٹ اور اُس منصوبے پر عملدرآمد کرنے والا ادارہ یعنی کنٹریکٹر مختلف ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں کالاباغ ڈیم منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا۔کنسلٹنٹس کے نتائج کا جائزہ لینے کیلئے محکمہ آبپاشی نے جن انجینئروں کی خدمات حاصل کیں ، وہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کوئی علم یا براہِ راست تجربہ نہیں رکھتے تھے اور اسی کمی کی بنا پر وہ کالاباغ ڈیم کی تکنیکی تفصیلات پر سوال اٹھاتے رہتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو انجینئرنگ کی مہارت یا تکنیکی اعتبار سے زیرِ بحث نہیں لایا جاتا، بلکہ اس کے برعکس نہایت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اِسے ایک سیاسی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں وفاقی حکومت کے ادارے یعنی واپڈا کو ایک صوبے کے خلاف لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ بحث کے دوران اُن ماہرین کی پیشہ وارانہ اہلیت کو بڑی آسانی کے ساتھ نظرانداز کر دیا جاتا ہے جنہوں نے کالاباغ ڈیم کا انجینئرنگ ڈیزائن تیار کیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹس کی رپورٹ پر اختلافی مشاہدات اور نتائج ایسے انجینئروں کی جانب سے سامنے آئے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی آبپاشی، تعمیرات یا شاہرات کے صوبائی محکموں میں کام کرتے ہوئے گزار دی ۔ وہ کسی بھی طور اُس مطلوبہ مہارت کے حامل نہیں ہیں، جس کی بدولت وہ ایسے ماہرین کے اخذ کردہ نتائج پر سوال اُٹھا سکیں یا اُنہیں چیلنج کرسکیں، جن کی پانی کے بڑے منصوبوں کے ڈیزائن تیار کرنے کے حوالے سے قابلیت، تجربہ اور شہرت بین الاقوامی طور پر مسلّمہ ہے۔
محترم قارئین! اِس دلدل سے باہر نکلنے کا راستہ ایک مختلف راستہ اختیار کرنے میں ہے۔ واپڈا اس منصوبے کے مخالفین کے خدشات کو اِس طرح دور کرسکتا ہے کہ وہ متعلقہ صوبائی حکومتوں سے یہ استدعا کرے کہ وہ اپنی منشا کے مطابق غیرجانبدار ماہرین کا تقرر کریں، جو کالاباغ ڈیم کے بارے میں پہلے سے کئے گئے مطالعات کا آڈٹ کریں اور اُن کے نتائج کے درست یا غلط ہونے کا تعین کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی کسی پیشکش کو قبول کیا جاتا ہے تو وفاقی حکومت کی اجازت سے واپڈا غیرجانبدار ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کیلئے بخوشی فنڈ فراہم کرے گا۔


.
تازہ ترین