• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہید محترمہ بینظیر بھٹو مسلم ممالک کی تاریخ میںپہلی خاتون ہیں جو 35سال کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئیں۔وہ ایک ایسے عظیم خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس میں عوام کی رہنمائی اور غریب کا دست و بازو بننے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹونے پیپلز پارٹی پاکستان کی بنیاد رکھی تو اپنی ساری زندگی پاکستان کے عوام کی بہتری کے لئے وقف کر دی ۔اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد شہید بینظیر بھٹو نے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستانی عوام کی قیادت کی مشکل ذمہ داری سنبھالی بلکہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کا بھی جرأت مندی سے مقابلہ کیا۔اپنی منفرداور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے محترمہ شہیدنے دو مرتبہ اس ملک کا اقتدار سنبھالا اور پھر نامساعد حالات کی وجہ سے اپنی جان قربان کر دی۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بینظیر بھٹو شہید کی قیادت کو کئی اندرونی و بیرونی سیاسی مخالفین کا سامنا کرنا پڑا۔ان کی خلاف ظالم آمروں، مذہبی انتہا پسند گروپوں،سول سوسائٹی اور کئی ایک اندرونی و بیرونی سیاسی رہنمائوں نے محاذآرائی کی۔بی بی شہید نے نہ صرف ان مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔بینظیر بھٹو شہید ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل تھیں کہ جنہوں نے انہیں کبھی دشمنوں کے سامنے سر نہیں جھکانے دیا۔جلا وطنی، قیدو بند کی صعوبتیں اور غیر معمولی سیاسی جنگ ہی انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنی۔اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے انہوں ملک میں دوبارہ جمہوریت قائم کی۔شہید بینظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاست کے افق پر چمکنے سے پہلے بھی کئی بار مشکلات اور سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفین کے خلاف مزاحمت اور ان کی ذہانت نے نہ صرف انہیں حالات سے لڑنا سکھایا بلکہ اس طریق سے انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم ممالک کی تاریخ میں اپنا نام جلی حروف سے بھی رقم کروایا۔ بی بی شہید نے نہ صرف معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر کے سیاسی افق پر اپنا الگ مقام بنایا بلکہ بحیثیت خاتون سیاستدان بھی اپنے مخالفین کو اپنی صلاحیتوں کا گرویدہ بنا لیا۔اس وقت کی غالب سیاسی قوتوں نے بینظیر بھٹو اور ان کے جیالوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے مختلف طرح کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔مذہبی انتہا پسند گروہوں نے نہ صرف بی بی شہید کے مسلمان ہونے پر سوالیہ نشان لگایا بلکہ انہیں ایک سیکولر شخصیت قرار دیتے ہوئے بھی ان کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے حامی گروپوں نے بی بی کی کردار کشی کرتے ہوئے انہیں باغی اور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے دیا۔یہ قوتیں محترمہ کی صلاحیتوں سے اس حد تک خوف زدہ تھیں کہ انہوں نے بی بی کو جیل میں بھی ڈالا اور جلاوطنی پر بھی مجبور کیا مگر ان سب مشکلات نے بھی بی بی شہید کو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے دیا۔میرے لئے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ میں نے اپنا تیس سالہ سیاسی سفر بینظیر بھٹو جیسی عظیم رہنما کی معیت میں طے کیا۔میں اس وقت بھی ان کے ساتھ تھا جب انہیںپاکستانی تاریخ کی مشکل ترین آمریت کا سامنا تھا ۔یہ ان کے والد شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی وصیت تھی کہ میں بی بی شہید کی سیاست میں معاونت کروں۔2007ء میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے مجھے اپنی سوانح عمری لکھنے کو کہا تو میں نے انہیں بتایا کہ ان کی اوران کے خاندان کی سیاسی خدمات کو کسی ایک کتاب میں نہیں سمیٹا جا سکتا بلکہ اس موضوع کے لئے کئی کتابیں درکار ہوں گی۔انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی انٹر ویوز سے آپ کی معاونت کروں گی مگراسی سال ان کی شہادت نے مجھے مشکلات کے بھنور میں دھکیل دیا کیونکہ ایسی بہت سے چیزیں تھیں جن کی تصدیق صرف محترمہ شہید ہی کر سکتی تھیں۔محترمہ کی سوانح عمری پر معیاری تحقیق کے لئے میںنے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ کیاجہاں میں 1960 سے 70 کے دوران طلبہ تنظیم کا رہنما بھی تھا اور بہت سی کتابیں بھی لکھی تھیں جنہیں بعد میں سیلیبس کا حصہ بھی بنایا گیا۔2013ء میں مجھے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی سوانح عمری کے حوالے سے کی گئی تحقیق پر پی ایچ ڈی کی ڈگری اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔میرا مقصد شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مسلسل مزاحمت اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالنا تھا، جس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔بینظیر بھٹو ذاتی طور پر بھی کئی صلاحیتوں کی حامل تھیں۔وہ ایک ذہین، دانشمند اور بہادر خاتون تھیں،وہ مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور جذبہ دونوں رکھتی تھیں۔محترمہ کی سوانح عمری کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کی اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہی تھی جس نے انہیں اپنے مخالفین کے سامنے سر نہیں جھکانے دیا۔انہوں نے نہ صرف بہادری سے اپنے سیاسی مخالفین اور ملک کو درپیش مسائل کا نہایت جوانمردی سے سامنا کیا بلکہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور پاکستان میں جمہوریت قائم کرنے کے لئے بھرپور اور فعال کردار ادا کیا۔بینظیر بھٹو کے سیاسی مخالفین اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ پیپلز پارٹی محترمہ کی قیادت میں اس آمریت کا سامنا نہیں کر سکے گی جس کی بھٹو خاندان سے ذاتی مخاصمت تھی لیکن محترمہ نے نہ صرف ان مشکل ترین حالات کا سامنا کیا بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی از سر نو منظم کیا اور ملک میں جمہوریت کو بحال کیا۔وہ اپنی سیاسی خدمات کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔انہوں پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لئے جامِ شہادت نوش کیا۔وہ ایسی خداداد صلاحیتوں کی حامل رہنما تھیں جو پاکستان کو ایک امن پسند، معاشی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط جمہوریت میں تبدیل کر سکتی تھیں۔

.
تازہ ترین