• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
آج جن تصورات کے بارے میں حقیقی صورتِ حال واضح کی جائے گی وہ مندرجہ ذیل ہیں :
کالاباغ ڈیم اتنی بجلی پیدا نہیں کرے گا ، جتنی بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ارسا چھوٹے صوبوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی ، کیونکہ پانی سے متعلقہ فیصلہ سازی کے تمام اداروں میں پنجاب کا غلبہ ہے۔
واپڈا کے اہلکار سندھ کے اہل کاروں کو مختلف بیراجوں اور نگرانی کے مقامات پر دریائے سندھ کے پانی کے بہائو کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
کالاباغ ڈیم کے مخالفین کے خیال کے مطابق واپڈا کی یہ بات درست نہیں کہ اس ڈیم سے ابتدائی طور پر 2 ہزار 400 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی،
بعد ازاں اس میں اضافہ ہوگا اور بالآخر یہ 3 ہزار 600 میگاواٹ ہوجائے گی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ درحقیقت اِس منصوبے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 350 میگاواٹ ہے اور یہ بات ڈاکٹر پیٹر لیفٹنک نے بھی اپنی رپورٹ کی جلد دوئم میں بیان کی ہے۔ اس بات کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ڈیم میں درمیانی سطح سے مٹی کے اخراج کا ڈیزائن اور ڈیم کی تعمیر کیلئے غیرموزوں مقام ،بجلی کی اِس کم پیداوار کی وجوہات ہیں۔ مٹی کے اخراج کیلئے غلط ڈیزائن اختیار کرنے کی وجہ سے ڈیم کوہر سال پہلے خالی کرنا پڑے گا اور پھر اِسے بھرا جائے گا۔ جبکہ مٹی نکالنے کے اس لاحاصل عمل کیلئے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین ازخود یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں ایسا کرنے کی وجہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے دورانیہ میں بھی اس کی پیداوار کم ہوکر ایک ہزار 600 میگاواٹ رہ جائے گی۔ پانی کے بالائی جانب بہنے اور دریائے کابل میں سیلابی کیفیت سے بچائو کیلئے نام نہاد کوشش کے دوران ڈیم کی بلندی 10 فٹ کم کرنے سے بجلی کی پیداوار میں مزید کمی واقع ہوگی اور یہ محض ایک ہزار 350 میگاواٹ کی کم تر سطح تک آ جائے گی۔
ریکارڈ کی درستگی کیلئے کالاباغ ڈیم کے پروجیکٹ منیجر اے پی فریزر کے خط کا حوالہ نہایت مناسب رہے گا۔ واپڈا کو پروجیکٹ رپورٹ ارسال کرتے ہوئے انہوں نے مذکورہ خط کے دوسرے پیراگراف میں بیان کیا ہے کہ :
’’ کالاباغ ڈیم ایک بہت بڑا کثیرالمقاصد منصوبہ ہے۔ 2 ہزار 400 میگاواٹ پر مشتمل اس کی ابتدائی پیداواری صلاحیت کے باعث ہر سال 11 ارب 41 کروڑ 30 لاکھ یونٹ اضافی بجلی پیداہوگی ۔ اس منصوبے کی وجہ سے تربیلا کے مقام پر سالانہ 33کروڑ 60لاکھ یونٹ اضافی بجلی بھی حاصل ہو گی جبکہ تربیلا میں ہی بجلی کی انتہائی پیداوار کے اوقات میں 600 میگاواٹ تک بجلی کا اضافہ ہوگا۔‘‘
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے جس تخمینے کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ڈاکٹر پیٹر لیفٹنک نے 1967 ء میں لگایا تھا ۔ اور اس وقت تک ڈیم تعمیر کرنے کیلئے کسی حتمی مقام کا فیصلہ تک نہیں ہوا تھا۔ تب منصوبے کے تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن پر کام بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اُس کے بعد کے دنوں میںٹیکنالوجی میں جو بہتری آئی، اسے بھی بجلی کی کم پیداوار کا دعویٰ کرنے والوں نے غور کے قابل ہی نہیں سمجھا۔
پیٹر لیفٹنک کی مذکورہ رپورٹ 1969ء میں شائع ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 294 پر کالاباغ ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 350 میگاواٹ نہیں بلکہ ایک ہزار 125 میگاواٹ بیان کی گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار کا یہ اندازہ ڈیم کی تعمیر کیلئے اس مقام کی بنیاد پر لگایا گیا تھا جس کی اس وقت نشاندہی کی گئی تھی۔ اس وقت بجلی پیدا کرنے کیلئے جوٹربائنیں دستیاب تھیں، ان کی پیداواری صلاحیت بھی نسبتاً کم تھی۔ جبکہ آنے والے دنوں میں ایسی ٹربائنیں موجود تھیں جن کی پیداواری صلاحیت ماضی کی ٹربائنوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ علاوہ ازیں کالاباغ کے علاقے میں ڈیم تعمیر کرنے کا مقام بھی تبدیل ہوچکا تھا اور یہاں زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔
بعض مصنفین کے ذہنوں میں پایا جانے والا ایک اور تاثر ارسا کی کارکردگی کے بارے میں ہے۔
پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس ادارے میں تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے اور تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے ۔ کوئی بھی صوبہ جو ارسا کے فیصلے سے ناخوش ہو ، وہ مشترکہ مفادات کونسل سے رجوع کر سکتا ہے ۔ بالفرض وہ یہ سمجھے کہ اُسے مشترکہ مفادات کونسل سے انصاف نہیں ملے گا، تو معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو بھجوایا جاسکتا ہے۔ اگر آبی ماہرین کی جانب سے اخباروں کے کالموں، پمفلٹس اور کتابوں میں بیان کی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ارسا کے خلاف ان شکایات کا ایک انبار نظر آئے گا۔اس کے برعکس ریکارڈ سے حیرت انگیز طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارسا کے قیام کے گزشتہ 24 برس میں کسی بھی صوبہ نے اس کے خلاف مشترکہ مفادات کونسل میں ایک شکایت بھی نہیں بھجوائی۔
ایک اور غلط فہمی جس کا بہت زیادہ چرچا کیا جاتا ہے کہ واپڈا کے اہلکار سندھ کے اہلکاروں کو مختلف بیراجوں اور نگرانی کے مقامات پر دریائے سندھ کے پانی کے بہائو کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ دُنیا بھر میں دریا کے زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگ بالائی علاقوں میں مقیم افراد کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں ۔ سندھ میں یہ عمومی تاثر کہ بالائی علاقوں کے لوگ زیریں علاقوں کے حصے کا پانی چوری کرتے ہیں، یہ خدشہ ان کے گزشتہ 150 برس کے تجربات سے جُڑا ہوا ہے۔ مشہور مصنف رچرڈ ایف برڈن، جن کی خدمات نبپٹر کی سندھ حکومت نے 1850 ء میں سندھ میں نظام آبپاشی کا مطالعہ کرنے کیلئے حاصل کی تھیں، انہوں نے اس مسئلے پر خاصی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ ان دنوں نہروں پر کٹ لگا کر یا سیلابی نہر کو روک کر پانی چوری کرنا عام بات تھی۔ اس تجربے کی بنیاد پر زیریں علاقوں کے لوگوں میں خوف اور خدشات پر مبنی ایک مخصوص سوچ پروان چڑھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی تھی اور واپڈا موجود نہیں تھا، سندھ کی درخواست پر ،جو اُن دنوں بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ تھا، برطانوی حکومت نے 1929 ء میں سندھ کے اہلکاروں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ پنجاب میں واقع ہیڈورکس پر دریائوں کے بہائو کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ اپنے ان ہی واہموں کی بنا پر ایک عام سندھی ہاری پانی چوری کی باتوں پر یقین کرنے اور پانی کے بہائو کے بارے میں بالائی علاقوں کے مرتب کئے گئے اعداد و شمار کو رد کرنے کی طرف راغب ہوتاہے ۔ خوش قسمتی سے ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث اب ٹیلی میٹری سسٹم بنایا جاچکا ہے۔ جس کی مدد سے یہ وسوسے اور اندیشے موثر طور پر دور کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی میٹری سسٹم 2003 ء سے استعمال ہو رہا ہے اور اس کی مدد سے ملک بھر میں تمام اہم اور مخصوص مقامات پر پانی کے بہائو کا براہِ راست معائنہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ارسا اور محکمہ آبپاشی کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ تاہم بالائی علاقوں پر اعتماد کا فُقدان اس قدر شدید ہے کہ اکثر و بیشتر یہ قصے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ کس طرح پنجاب میں پانی کی مانیٹرنگ پر مامور سندھ کے انسپکٹروں کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیاجاتا ہے۔ واپڈا اور محکمہ آبپاشی پنجاب کی جانب سے اس معاملے کو دیکھنے پر یہ بات سامنے آئی کہ محکمہ آبپاشی سندھ کے اہلکار پنجاب میں چشمہ، جناح، تونسہ اور پنجند کے بیراجوں پر نگران کے طور پر ڈیوٹی سرانجام دینے کو اپنے لئے زیادہ پُرکشش نہیں پاتے کیونکہ وہ اپنے گھروں سے دور اس کام کی انجام دہی میں وہ ظاہر اور مخفی فوائد حاصل نہیں کرسکتے جو سندھ میں اپنی معمول کی تعیناتی کے دوران اُنہیں حاصل ہوتے ہیں۔
خدشات کی اس دلدل سے باہر نکلنے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال ہی واحد حل ہے۔ تمام ضروری مقامات پر ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب کیلئے فنڈز فراہم کئے جانے چاہئیں۔ اور اس نظام کے ذریعے ان مقامات کی مانیٹرنگ کی سہولت نہ صرف متعلقہ سرکاری محکموں میں موجود ہونی چاہییٔ بلکہ سندھ آبادگار بورڈ، سندھ چیمبرآف ایگری کلچر اور سندھ سمیت ملک بھر میں موجود کاشت کاروں کی تمام تنظیموں کو مانیٹرنگ کے نظام اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار تک مکمل اور ہمہ وقتی رسائی دی جانی چاہئے۔
تازہ ترین