• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
SMS:#NRC(space)message & send to 8001
chairmain@wapda.gov.pk
زیرِ نظر مضمون کی گزشتہ 23اقساط میں زیرِ بحث لائے گئے موضوعات کا مرکزی محور یہ امور تھے کہ مختلف ممالک نے اپنے آبی مسائل کو کس طرح حل کیا ہے ، اور کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں تصورات اور حقیقی صورت ِحال میں کیا فرق ہے؟
گزشتہ اقساط میں سرکاری ریکارڈ کی مدد سے اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ کالاباغ ڈیم کے ڈیزائن کے مطابق آبی ذخیرے سے کوئی بھی نہر نکالنا قابلِ عمل نہیں اور چشمہ رائٹ بنک لِفٹ کینال منصوبے کی منظوری کے بعد اب تو اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہی۔ سندھ کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ سیلابہ کے علاقوں میں آبپاشی کی ضروریات کی تکمیل اور کوٹری سے زیریں جانب مستقل بنیادوں پر پانی کا بہائوکالاباغ ڈیم منصوبے کا حصہ ہیں۔اسی طرح اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ خیبرپختونخوا کی حکومت خود تیکنیکی ماہرین کا تقرر کر کے یہ ضمانت حاصل کرسکتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پشاور کی وادی کو سیلاب سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس علاقے میں اراضی سیم اور تھور کا شکار ہوگی۔
مذکورہ تفصیلات کے بعد آئندہ تین اقساط میں آبی مسائل کا دیرپا حل تلاش کرنے کیلئے ایک دیانتدارانہ کوشش کی جائے گی۔ کہنے کو یہ کام جتنا آسان ہے، اِسے کرنا اُتنا ہی مشکل ہے۔ اِس بارے میں لائحہ عمل وضع کرنے کیلئے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس مقصد کیلئے کون سا طریقۂ کار اختیار کیا جائے۔ کیا اِس معاملے میں عدالتوں سے رجوع کرنا چاہئے؟ اِسے فنی ماہرین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ، یا آبی مسائل کے حل کی تلاش میں سیاستدانوں پر انحصارکیا جائے؟
وفاقی طرزِ حکومت کی نسبت وحدانی طرزِ حکومت میں بالائی اور زیریں علاقوں کے درمیان آبی مسائل کا حل نسبتاً آسان کام ہے۔ کیونکہ وفاقی طرزِ حکومت میں ہر اکائی علیحدہ سیاسی تشخص رکھتی ہے، اس کی اپنی اسمبلی ، اپنا حلقہ انتخاب اور اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ چونکہ کسی بھی وفاقی آئین کے ڈھانچے میں عدالتِ عظمیٰ ہی حتمی ثالث کا کردار ادا کرتی ہے، تو کیا ہمیں یہ تصور کر لینا چاہئے کہ گمبھیر اور پیچیدہ آبی مسائل بھی عدالتی نظام کے ذریعے ہی بہتر انداز میں حل کئے جاسکتے ہیں ؟بہت سے لوگ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں کالاباغ ڈیم پروجیکٹ سے متعلق قضیہ حل کرنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکے ہیں۔وفاقی اکائیوں کے درمیان اس تنازع کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہش کے باوجود عدالتوں نے نہایت مناسب طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا بلکہ اُن کی جانب سے وفاقی حکومت کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اس معاملے کا حل تلاش کرنے کیلئے اسے مشترکہ مفادات کونسل کے دستوری فورم پر زیرِ بحث لائے ۔
دُنیا بھر کے تجربات کی بنا پر یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں پانی کی تقسیم، سیلاب سے بچائو ،حتیٰ کہ خشک سالی کے دوران پانی کی قِلت سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل وضع کرنے کے بہتر امکانات موجود ہوتے ہیں ،اور سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے زیادہ دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات پاکستان میں ہمارے تجربے پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمارے یہاں 1969 ء میں وَن یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ طے کرنے کیلئے اکتوبر 1970ء میں جسٹس فضل اکبر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی۔ بعد ازاں اِسی مقصدکیلئے1977 ء میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حلیم کی سربراہی میں حلیم کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان حلیم کمیشن کے ارکان تھے، تاہم مذکورہ کمیٹی اور کمیشن کے ارکان اِس بارے میں کوئی متفقہ رپورٹ پیش نہ کرسکے اور یوں یہ معاملہ حل نہ کیا جاسکا۔
اس پس منظر میں 1991 ء کے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف نے معاملے کے حل کیلئے فنی ماہرین کی کمیٹی یا عدالتی نظام پر تکیہ کرنے کی بجائے عملی قدم اٹھاتے ہوئے چاروںصوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی۔ وزرائے اعلیٰ کی کمیٹی نے مذاکرات کے دوران قانونی موشگافیوں اور تکنیکی معاملات پراپنا وقت صرف کرنے کی بجائے ’’کچھ لو ، کچھ دو‘‘ کا سیاسی اصول استعمال کیا اور یوں یہ مذاکرات مارچ 1991 ء میں پانی کی تقسیم کے معاہدے پر منتج ہوئے ۔ اس پیش رفت سے کئی سال قبل پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ طے پاچکا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان واٹر سیکورٹی سے وابستہ یہ ایک جذباتی مسئلہ تھا۔ تاہم بھارت کے ساتھ اس نازک معاملہ کو طے کرنے میںفیلڈ مارشل ایوب خان کی جرأت اور اُن کی فوج سے وابستگی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مذکورہ ہر دو صورتوں یعنی پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اورپاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے میں فریقین کو مصلحت کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر پر سمجھوتہ کرنا پڑا اور توقع کے عین مطابق دونوں معاہدوں کے نتیجے میں کوئی ایک فریق بھی نہ تو خوش ہے اور نہ ہی مطمئن۔ لیکن فائدے اور نقصان کی بحث میں پڑے بغیر، یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ دونوں معاہدوں کے نتیجے میں بالترتیب قومی ہم آہنگی اور علاقائی امن کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
2000 ء کے عشرے میں پاکستان میں پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی کوشش کی ۔ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ کالاباغ ڈیم سے وابستہ تنازعات کو حل کرنے کی کسی بھی کوشش کے خطرناک سیاسی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کوشش کے باریاب ہونے کا اِمکان اس قدر پُرکشش تھا کہ صدر مشرف جیسا فوجی حکمران بھی یہ کوشش کئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اُن کی اِس پیش رفت کے نتیجے میں تکنیکی اور سیاسی کمیٹیوں کی تشکیل ہوئی۔ دونوں کمیٹیوں کے سربراہ صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی کمیٹی کی سربراہی نثار اے میمن جبکہ تکنیکی کمیٹی کی قیادت اے این جی عباسی کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں ہی اس معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا نہ کرسکے۔گویا ایک مرتبہ پھریہ بات واضح ہوگئی کہ فنی ماہرین معاملات کے حل میں غیرمعمولی احتیاط برتنے کے عادی ہوتے ہیں۔وہ اپنی ذات پر ’’مقصد سے غداری‘‘کا ٹھپّہ لگوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اسی وجہ سے سیاسی دبائو کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ کمیٹیوں کے ارکان مختلف گروپوں میں منقسم ہوگئے جبکہ ارکان کی اکثریت کالاباغ ڈیم کے بارے میں اپنے صوبوں کی ثقّہ بند پوزیشن کے خول سے باہر نکلنے میں ناکام رہی۔ مذکورہ تناظر میں اس بات کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جن دنوں سیاسی کمیٹی اس معاملے کا جائزہ لے رہی تھی، اُن ہی دنوں کالاباغ ڈیم کے مخالفین چند لاریوں میں سوار ہوکر کمیٹی کے سربراہ نثار اے میمن کی کراچی میں واقع رہائش گاہ پہنچے اور اُنہیں ہراساں کیا۔ معاملہ ازخود حل کرنے کی بجائے سیاسی کمیٹی نے اس بات کی سفارش کی کہ اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں بھجوا دیا جائے۔سیاسی اختلافات سے قطع نظر، پاکستان میں وفاقی اکائیوں کے باہمی تعلقات عقل اور فہم کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ہمارے صوبوں کے تعلقات میںبہت سے مثبت پہلوہیں ۔ بیشتر اقدار مشترک ہیں۔ ہمارا مذہب ، ہماری ثقافت اور ہمارے تاریخی روابط نے ہمیں ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ قومی اُفق پرحوصلہ افزا ماحول کی وجہ سے ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے اتفاق رائے حاصل کرسکتے ہیں۔ اور ماضی میں ایسا ہو بھی چکا ہے۔1973ء میں ہم نے متفقہ طور پرآئین منظور کیا اور 1991ء میں ہم پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوئے۔ہم این ایف سی ایوارڈ پر بھی باہم رضامند ہوتے رہتے ہیں اور ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کی حکومت کے ساتھ پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا دیرینہ مسئلہ بھی حل کیا ہے۔
مستقبل میں ہمیں پانی کے حوالے سے شدید مسائل درپیش ہوں گے اور اوپر بیان کئے گئے تمام مثبت عوامل کے باوجود اِن مسائل کے حل کی تلاش ہماری صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہوگا۔پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اِن مسائل کا محض ایک جزو ہے اور اِس تناظر میں کالاباغ ڈیم صرف ایک ترقیاتی اسکیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے ، سیلاب کی روک تھام اور بجلی کی پیداوار کے حوالے سے یہ منصوبہ بہت سے فوائد کا حامل ہے۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین اسے ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کے درپے ہیں، لیکن یہ منصوبہ ہے کہ مرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔کالاباغ ڈیم منصوبہ تنازعات کو حل کرنے کیلئے ہماری اجتماعی صلاحیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اِس منصوبے پر اتفاقِ رائے پوری قوم کیلئے ایک تحفہ ہوگا اور اس کے کثیرالمقاصد اثرات ہماری قومی سیاست میں مثبت رُجحان کو جنم دیں گے۔
تازہ ترین