• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
کالاباغ ڈیم کے حامی خصوصاً جن کا تعلق پنجاب سے ہے ، وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ منصوبہ پانی کے انتظام و انصرام ، سیلاب سے بچائو ، پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار سمیت ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ لیکن اس متنازع منصوبے سے قطع نظر پاکستان کے تمام صوبے عمومی طور پر پانی کے اُن خوفناک مسائل سے لا تعلق رہے ہیں ، جووہ اپنے طرز عمل کی بدولت آئندہ نسلوں کے لئے پیدا کررہے ہیں۔
اِس ضمن میں پہلا بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہے ۔ دریائے سندھ میں پانی کا یکساں بہائو زیادہ تر گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہے ، اگرماحولیاتی تبدیلی کے بدترین پیش منظر کا تصور کیا جائے تو تمام گلیشئرز صرف ایک صدی میں ہی ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران ان کے پگھلنے کی شرح بہت بلند ہوگی ۔ جبکہ گلیشئرز ختم ہونے کے بعد پانی کی فراہمی میں 30 سے40 فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ ہمارے یہاں مون سون کا موسم بدل رہا ہے جبکہ چترال اور سوات سمیت پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونے والے کلائوڈ برسٹ (Cloud Burst)کے واقعات ہمیں اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ ہم نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔
ہماری پالیسی سازی کے لئے دوسری بڑی آزمائش آبادی میں اضافہ کی شرح ہے۔ آبادی میں اضافہ کی بدولت غذائی ضروریات بھی بڑھیں گی اور لوگ بڑی تعداد میں شہروں کا رخ کریں گے جبکہ اضافی خوراک کے حصول کے لئے غیر آباد اراضی کو سیراب کرنے کے لئے پانی کی طلب میں اضافہ ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہمارے یہاں ایسی اضافی اراضی موجود ہے جسے زرعی مقاصد کے لئے استعمال میں لا یا جاسکتا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ اِ س مقصد کے لئے پانی کہاں سے آئے گا؟
آبادی میں اضافہ کی وجہ سے روزگار کے زیادہ مواقعوں کی ضرورت ہوگی ۔ملازمت کے زیادہ مواقع ، صنعت و حرفت کے فروغ سے ہی پیدا کئے جاسکتے ہیں ، لیکن اس افزائش کے اپنے مسائل ہیں ۔ کارخانے چلانے کے لئے بھی پانی درکار ہوتا ہے اور صنعت پانی کو آلودہ بھی کرتی ہے۔ صنعتوں کی وجہ سے پانی کی آلودگی کا مسئلہ ہماری بے عملی اور سہل پسند طرز ِحکمرانی کا شاخسانہ ہے۔ ہمارے بیشتر صنعتی علاقوں میں پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے پلانٹس ہی نصب نہیں ہیں۔ صنعتی فضلے پر مشتمل آلُودہ پانی زیادہ مُضر ہوتا ہے کیونکہ اس میں شامل کیمیائی مواد زیر زمین میٹھے پانی میں شامل ہو کر بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔پاکستان میں پانی کے حوالے سے تیسرا بڑا مسئلہ زیرزمین پانی کے انتظام و انصرام کے بارے میں ہے۔ قدرت نے ہمارے لئے زیرزمین پانی کے جو ذخائر صدیوں سے بنائے ہیں ، وہ اب بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں۔ اکثر شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک نیچے جاچکی ہے ۔ اس وقت لاہورشہر میں واسا 750فٹ کی گہرائی سے پانی نکال رہا ہے جبکہ زیر زمین پانی صرف ایک ہزار فٹ کی گہرائی تک موجود ہے۔ جبکہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے ، اُسے بحال کرنے کے لئے دو صدیاں درکار ہوں گی۔
ہمارے ہاں چوتھا مسئلہ پاکستان کی قیمت سے متعلق ہے اور غالباً پاکستان کی آبی اقتصادیات کو درپیش مسائل کی جڑ ہے ۔ ہم پانی کو اس طرح استعمال کرتے ہیں گویا یہ ہوا کی مانند بلا قیمت اور کثرت کے ساتھ دستیاب ہے۔ جس دورمیں سکھر بیراج تعمیر کیا گیا ، سندھ ، بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ تھا ۔ سکھر بیراج ہندوستان کے پایۂ تخت دہلی سے حاصل کئے گئے قرض کی مدد سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر پر آنے والی لاگت اور بعد ازاں اسے چلانے کے لئے درکار رقم ، پانی استعمال کرنیو الے لوگوں سے وصول کی جانی تھی۔ 1936ء میں سندھ ایک علیحدہ صوبہ بن گیا اور سندھ انتظامیہ یہ رقم وصول کرنے میں ناکام رہی۔ دہلی میں قائم برطانوی حکومت کے پاس اِس بات کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ سکھر بیراج کی تعمیر کے لئے حاصل کئے گئے قرض کی وصولی کے لئے مزید مہلت دے ۔ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف سندھ بلکہ دیگر تمام صوبوں سے بھی منصوبوں کی تعمیر پر اٹھنے والی لاگت کی وصولی کو بتدریج ترک کردیا گیا ۔ اب صرف ان منصوبوں کا انتظام چلانے کے لئے درکار رقم وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن اس رقم کا بہت تھوڑا حصہ ہی حاصل ہوپاتا ہے ۔ اِس صورت حال کا نتیجہ ہے کہ اب پانی کے وہ منصوبے ، جن میں بجلی کی پیداوار کا عنصر شامل نہیں اُن کی تعمیر کے لئے درکار رقم کا انتظام تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
ماضی میں خان پور اور حب ڈیم کے دو منصوبے صرف پانی ذخیرہ کرنے کے لئے تعمیر کئے گئے ۔ خانپور ڈیم کا پانی راولپنڈی اور اسلام آباد کی شہری ضروریات جبکہ خیبر پختونخوا کی زرعی ضروریات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح حب ڈیم سے کراچی میں آب نوشی اور بلوچستان میں زرعی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اقتصادی رابطہ کونسل (ای سی سی) کے فیصلے کے مطابق دونوں منصوبوں کی تعمیر پر آنے والی لاگت اور ان کی تکمیل کے بعد انہیں چلانے کے لئے (او اینڈ ایم) اخراجات متعلقہ صوبوں سے وصول کئے جانے تھے ۔ ای سی سی کے فیصلے کے باوجود تعمیراتی اخراجات کبھی وصول نہیں کئے گئے جبکہ متعلقہ صوبے اِ ن منصوبوں کو چلانے کے لئے درکار رقم کی ادائیگی پر بھی لیت و لعل کرتے ہیں ۔ اس بات کا تذکرہ قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ او اینڈ ایم چارجز میں پانی کی قیمت شامل نہیں ہوتی بلکہ چارجز صرف ان منصوبوں کو جاری رکھنے کے لئے درکار رقم پر مشتمل ہوتے ہیں۔
پانی کی قیمت کا تعین کئے بغیر پانی کے زیرِزمین رسائوکو روکنے کے لئے نہروں کی پختگی کے منصوبے کے لئے رقم کا انتظام بھی انتہائی دشوار ہے۔ 1976ء سے 2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 145ملین ایکڑ فٹ دریائی پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس میںسے 101ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ نہروں کو منتقل کئے گئے پانی میں 40ملین ایکڑ فٹ کھیتوں تک پہنچنے کے دوران کم ہوجاتا ہے یعنی 4ملین ایکڑ فٹ پانی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ 36ملین ایکڑ فٹ پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے ۔ نتیجتاً ہمارے کھیتوں تک صرف 61ملین ایکڑ فٹ پانی پہنچتا ہے ۔ زمین میں جذب ہونے والے 36ملین ایکڑ فٹ پانی کا 20ملین ایکڑ فٹ پانی کھارے علاقوں میں جذب ہوتا ہے ۔ یہ علاقے زیادہ تر ملک کے جنوبی حصے میں واقع ہیں۔ باقی 16 ملین ایکڑ فٹ پانی ایسی اراضی میں جذب ہوتا ہے جہاں زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ کھارے پانی کے علاقوں میں جذب ہونے والے 20ملین ایکڑ فٹ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے نہروں کو پختہ کرنا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔ لیکن نہروں کو پختہ کرنے کے منصوبوں کے لئے تجاری طور پر رقم کا بندوبست اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس سرمایہ کاری کی واپسی کا کوئی انتظام نہ ہو۔ ایک گزشتہ قسط میں آل مریکن کینال کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ دریائے کولاراڈو کے زیریں طاس میں تعمیر کی گئی یہ نہر کئی سالوں تک ناپختہ رہی ۔ لیکن 2003ء میں وفاقی اور ریاستی فریقین اِس نہر کو پختہ کرنے کے لئے سرمایہ کاری اور نتیجتاً بچائے گئے پانی کو باہم تقسیم کرنے پر رضا مند ہوگئے ۔ ہم یہ کام اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے یہاں زرعی مقاصد کے لئے استعمال میں لانے والے پانی کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ہمارے یہاں فصلوں کی کاشت بھی پانی کی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایک آبی ماہر نے ازراہِ تفنّن کہا کہ پاکستان کا شمار آبی قلت والے ممالک میںنہیں ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان 2ارب ڈالر کے مساوی چاول برآمد کرتا ہے اور اب اس نے چینی کی برآمدات کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اِن فصلوں کے لئے بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے ۔چونکہ ہم نے پانی کی حقیقی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا ، لہٰذا ہمارے یہاں پانی کے بے محابا استعمال کو روکنے کے لئے مارکیٹ فورسز کارگرنہیں ہیں۔ اگر کاشتکار اپنی زمین کو ہموار کرنے کے لئے لیزر ٹیکنالوجی بروئے کار لائیں تو زراعت میں پانی کا استعمال25فیصد کم ہوسکتا ہے ، جبکہ فصلوں کی کاشت کے لئے ڈرپ اریگیشن کا طریقہ اختیار کرنے پر پانی کے استعمال میں 70فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔ پانی بچانے کے لئے مذکورہ تکنیک کے لئے صرف ایک مرتبہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے، لیکن کوئی بھی کاشتکار اِ س حوالے سے جس بات کو پیش نظر رکھے گا ، وہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے بدولت پانی کی بچت سے اُسے کس قدر مالی فائدہ حاصل ہوگا۔
اگر ہمارے وفاق کی چاروں اکائیاں آنے والی نسلوں کے لئے اپنی اجتماعی ذمہ داری کا احساس کریں تو ہمیں اپنی مستقبل کی آبی ضروریات کے لئے حوالے سے لائحہ عمل وضع کرنے کے لئے اجتماعی سوچ اپنانے کی فوری ضرورت ہے ۔ یہ بات ہمارے پیش نظر رہے کہ آبی ذخائر کی تعمیر اس لائحہ عمل کا محض ایک جزو ہے۔
تازہ ترین