• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک نیم فلسفی دوست کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ایک شریف شہری کو اپنی اوسط عمر یعنی ساٹھ ، ستر سالہ زندگی میں اوسطاً تین سے چار دفعہ محکمہ پولیس سے واسطہ پڑتا ہے ۔ یہ واسطہ اس شہری کے گھر ، دوکان یاسائیکل ، موٹر سائیکل کی چوری یا ڈکیتی کی صورت میں ہوسکتا ہے یا پھر کسی محلہ دار ، ہمسائے کی طرف سے ناجائز تنگ کئے جانے یا دھوکہ دینے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے ۔ اور بقول نیم فلاسفر محکمہ پولیس سے یہ واسطہ کچھ لوگوں کے لئے کافی ناخوشگوار بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔بلکہ شاید کچھ کے تو اٹھنے بیٹھنے کےــ’’انداز‘‘بھی بدل جاتے ہیں۔ اور اگر کسی شخص کا پولیس سے واسطہ اس سے زیادہ دفعہ پڑرہا ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یا تو اس شخص میں کوئی گڑ بڑ ہے یا پھر مقامی پولیس کچھ زیادہ ہی’’ہتھ چُھٹ‘‘ہوگئی ہے۔ فلسفی بے شک نیم ہی کیوں نہ ہو مگر بقول شخصے ہوتا تو فلسفی ہی ہے، اسی لئے ہم نے اس نیم فلسفی دوست کے اس سروے سے مکمل اتفاق کرلیا تھا۔
مگر اس حوالے سے ہمارے خیالات میں ایک اہم موڑ تب آیا جب پچھلے دنوں ہماری ملاقات ایک’’ مظلوم بابا‘‘ سے ہوئی ۔ مظلوم باباکے بقول پچھلے 48سال سے وہ انصاف کے لئے دھکے کھارہے ہیں اور تھانے اورایس پی کے دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر اس کے جوتے تو کیا ایڑیاں تک گھِس گئی ہیں ۔ سچ پوچھئے تو جہاں ایک طرف ہمیں بابا جی سے بہت ہمدردی محسوس ہوئی دوسری طرف نیم فلسفی دوست کے سروے پر بھی بڑا غصہ آیا ۔ جب ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ زیادتیوں اور ناانصافیوں کا یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا اور کب ختم ہوا تو بابا جی نے کہا بھئی ختم کہا ں ہوا ہے!! کہنے لگے میں تو اب چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں رہا ہوں اس لئے ان کے مقدمے کی پیروی اب خالقو)بڑا بیٹا(ہی کرے گا اور جہاں تک یہ سلسلہ شروع ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں صحیح یاد تو نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ خالقو ابھی پیٹ میں تھا اور شاید گندم کی کٹائی کا موسم تھا ۔یہ کہتے ہوئے بابا نے ایک ضخیم سی فائل نکال کر میرے سامنے رکھ دی۔کہنے لگے سارا ریکارڈ اس میں ہے آپ خود دیکھ لیں ۔فائل میں سب سے پرانی عرضی جو اس وقت کے ضلع کے ایس پی کے نام تھی مارچ 1965ء کی تھی اور پھر اس کے بعد مختلف عنوانات کے تحت عرضیوں کا ایک بھاری پلندہ ۔ یہ عرضیاں ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور ایس پی کو لکھی گئی تھیں اور ان سب کا مقصد مقدمات کا اندراج تھا ۔ جب ہم نے پوچھا کہ بابا جی ـان میں سے کتنی درخواستوں پر مقدمات کا اندراج ہوا ہے اور کتنوں پر نہیں توکہنے لگے پرچے تو صرف 20/25ہی درج ہوئے ہوں گے مگر اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کہ پولیس نے کبھی بھی میرے پورے ملزم گرفتار ہی نہیں کئے ۔ عرضیوں کے ڈھیرمیں سے ایک اٹھا کر دیکھی تو معلوم ہوا اس میں 35نامزد اور25نامعلوم (یعنی کل60) ملزم تھے ۔کہنے لگے پولیس نے ناانصافی کی صرف 25ملزم گرفتار کئے تھے باقی سب کو بے گناہ کردیا تھا ۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بابا جی کی کسی درخواست پر پندرہ سے کم ملزم نہیں تھے ۔ ایک اور درخواست کے متن کے مطابق 23سے اوپر ملزمان نے بابا جی پر حملہ کیا ان میں سے 3مسلح کلاشنکوف ، 10مسلح پستول، 5مسلح 12بوربندوق اور5مسلح سوٹا تھے۔ درخواست کے مطابق ان سب مسلح لوگوں نے گھر میں داخل ہوکر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا اور حملہ آور ہوئے ۔ ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ اتنے مسلح لوگوں کے حملہ کے باوجود تم کیسے زندہ بچ گئے ؟ سادگی سے کہنے لگے اللہ کی ذات نے بچا لیا بس۔ ایک ایسی درخواست بھی دیکھنے میں آئی جس میں بابا جی نے ایک شخص کے خلاف لکھا تھا کہ اس نے میراکتا اپنی گاڑی کے نیچے دے کر زخمی کردیا۔ ڈائریکٹ دعویداری تو گاڑی کے ڈرائیور پر ہی کی تھی مگر ایماء میں4اور لوگوں کو بھی نامزد کیا تھا۔ پولیس نے آگے سے کہہ دیا کہ پہلے کتے کا میڈیکل بنوا کے لاؤ۔ باباجی کہنے لگے پولیس والے تو پھر بھی کچھ کام کرہی دیتے ہیں مگر اسپتالوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔کسی ڈاکٹر نے کتے کا میڈیکل ہی نہ کیا ۔جس کے لئے بابا جی کو’’رِٹ ‘‘دائر کرنی پڑی۔اس درخواست کی ایک خاص بات یہ تھی کہ درخواست کے آخر میں جہاں بڑا سا’’عرضے‘‘لکھا ہوتا ہے اس کے نیچے بابا جی نے لکھا ہوا تھا’’ایک مظلوم کتے کا مالک‘‘۔ہمارے استفسار پر بابا جی نے بتایا کہ اس سارے عرصہ میں 2بھائیوں، 3بھتیجوں اور کچھ ہمسائیوں کو ملا کے کل تقریباً 30/40سے اوپر اشخاص تو گرفتار کرواہی چکے ہوں گے ۔کہنے لگے مگر ابھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
بابا جی کو پچھلے 48سال کے اپنے ضلع کے تمام پولیس کپتانوں کا شجرہ نسب تک ازبر تھا ۔بابا جی کو یہ بھی معلوم تھا کہ فلاں کپتان تلہ گنگ کے علاقے ترحدہ سے بھی آگے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا اور فلاں کپتان میانوالی سے بھی آگے ایک قصبہ موچھ کاتھا۔کس نے کب چارج چھوڑا اورکس نے کب چارج لیااس معاملہ میں اگر ایس پی آفس کے ا سٹاف کوکوئی کنفیوژن ہوتی تو وہ بابا جی سے رجوع کرتے تھے۔ کون ساافسر سگریٹ پیتا تھا اور کون سا پائپ اور کون دن میں کتنی نمازیں پڑھتا تھاوغیرہ یہ سب چیزیں بابا جی کو معلوم تھیں ۔ آفیسر تو آفیسردفتر کے سیکیورٹی اسٹاف والے بھی بابا جی سے اجنبی نہ تھے۔ ہم نے پوچھا بابا جی ان تمام صاحب لوگوں کا آپ کی طرف رویہ کیسا تھا ــ؟کہنے لگے کچھ تو بڑے تحمل سے بات سنتے تھے مگر کچھ تو ایسے بھی تھے جو درخواست پر ایسے "گُھگھی"(دستخطی)مارتے تھے جیسے داتا صاحب کے دربار پر چاول بانٹنے والا چاول لینے والے شخص کے پلو میں جلدی سے چاول ڈالتا ہے تاکہ پیچھے والے کی باری جلدی آسکے۔بس ایسے لگتا تھا کہ صاحب بہادر’’ تبُرک‘‘بانٹ رہے ہوں۔ کہنے لگے مگر ہم پھر بھی محسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ ہمیں پھر بھی اسی دروازے پر ہی آنا پڑتا تھا ۔
جس طرح کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے یا پھر مجبوریاں انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں اسی طرح بابا جی نے بھی عرض و معروض اور عرض پردازی کے میدان میں وقت سے پہلے گرم لوکے تھپڑ کھا کے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔جب بھی کسی تھانے میں درخواست برائے اندراج مقدمہ برخلاف40/50لوگ جمع کراتے ہمیشہ اس کی ایک ایک کاپی وزیراعلیٰ ،وزیراعظم ، چیف جسٹس، آئی جی، ڈی آئی جی، ایس پی، سیشن جج، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈ ی جی آئی بی کو ضرور ارسال کرتے ۔ کہنے لگے ایک دفعہ ایک درخواست کی کاپی تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی بھیجی تھی معلوم نہیں اسے ملی بھی ہوگی کہ نہیں!!کچھ عرصہ قبل تو بابا جی نے کسی سے سنا کہ ڈی پی او اور ڈی سی او کا ـ"مین سوئچ" تو اسلام آباد میں" اسٹیبلشمنٹ ڈویژن "ہوتا ہے ۔اس لئے پچھلے کچھ سالوں سے تو درخواست کی ایک کاپی سیکرٹری اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کو بھی ضروربھیجتے ہیں
یہ ساری باتیں سن کر ہم نے بابا جی سے انتہائی دکھ کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور اللہ سے دعا گو ہوئے کہ بابا جی کو انصاف ملے۔ جاتے جاتے باباجی نے کہا کان ادھر کرو۔ ہم نے کان دیئے تو سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے، میرے مقدموں کےـ ’’آپو آپ‘‘ نوٹس کے نتیجے میں کچھ عرصہ قبل تو دو کپتان (S.P) بھی رگڑے گئے تھے، جھولے لعل۔
تازہ ترین