• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے شہر استنبول میں اتاترک ایئرپورٹ پر ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پورے عالم اسلامیہ کے لئے فکر و تشویش کا باعث ہیں کیونکہ نائن الیون کے بعد دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والے بیشتر ناخوشگوار واقعات کے ڈانڈے کسی نہ کسی انداز میں مسلمانوں یا عالم اسلام یا مسلم دنیا کا قلعہ کہلانے والے ملک پاکستان سے مل جاتے یا ملا دیئے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جس طرح بیشتر واقعات کی کڑیاں اسلام، مسلمانوں اور مسلم دنیا سےملنے کا سلسلہ سامنے آیا و ہ حیران کن ہے۔ مغربی ملکوں میں نائن الیون سے پہلے بھی بعض افراد کے پبلک مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کرنے اور بعض گروہوں کے مختلف فلسفوں کے نام پر اجتماعی خودکشیاں کرنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جنہیں انفرادی کیفیت کا شاخسانہ کہا جاتا رہا ہے۔ معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی واقعہ سے کسی مسلمان کا دور کا بھی تعلق نکل آنے پر دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کا وہ سلسلہ شروع ہو گیا جسے مغرب کے فہمیدہ طبقے بھی تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جس وقت نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے اپنے پالیسی بیان میں کمیونزم کو شکست دینے کے بعد اسلام کو اپنا دشمن قراردینے کا اعلان کیا اس کے بعد حیرت انگیز طور پر مسلم ملکوں میں فرقہ واریت ، لسانیت اور نسلی بنیادوں پر تفریق بڑھنے کے واضح اشارے سامنے آئے۔ جبکہ کرپشن، بدنظمی، افراتفری ،امارت و غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج ،توانائی کے بحرانوں ،صنعتی و زرعی پیداواریت میں کمی سمیت ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس سے بیشتر مسلم ملکوں کے نظاموں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ۔پاکستان کے شمالی علاقوں بالخصوص سوات اور مالا کنڈ ایجنسی میں عوام کی بعض محرومیوں کو جذباتی مذہبی نعروں اور مذہبی شدت پسندی میں تبدیل کرنے کی ایسی کوششیں سامنے آئیں جن میں افغانستان سے آئے گئے یا لائے گئے مسلح افراد کے ذریعے دو بار اس علاقے میں حکومت پاکستان کی عملداری کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوات میں فوجی آپریشن کے بعد اگرچہ امن و امان قائم ہو چکا ہے مگر افغانستان میں بحفاظت مہمانداری کا لطف اٹھانے والے باغی فضل اللہ کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردوں کی پرانی اور نئی تنظیموں کا پورا زور مسلم ممالک کو ہر اعتبار سے نقصان پہنچانے پر صرف ہو رہا ہے ، دوسر ی جانب دہشت گردی کے الزامات کا ہدف بھی مسلم ممالک ہی ہیں ۔ استنبول کے ایئرپورٹ پر منگل اور بدھ کی درمیانی رات جو تین خود کش دھماکے ہوئے ان کی ابتدائی رپورٹ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 36 اور زخمیوں کی تعداد 150بتائی جارہی ہے جس میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ منگل کے صرف ایک دن میں عراقی دارالحکومت کے قریب زیدان کی مسجد میں نماز تہجد کے وقت خود کش حملے میں14نمازیوں، عراقی سرحد کے قریب ایرانی صوبے کردستان میں جھڑپوں کے دوران 11کرد جنگجوئوں اور 3پاسداران انقلاب، یمن میں سعودی اتحادیوں کے فضائی حملے میں 25باغیوں، جنوبی سوڈان میں سرکاری فوجوں اور باغیوں کی جھڑپوں میں40افراد کے نذر اجل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مسلم امہ کے وہ ممالک جن میں سے بیشتر بیسویں صدی کے آغاز میں غلامی کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے،آج اپنی آزادی و خود مختاری کے باوجود ٹکڑوں میں بٹے ہوئے اور مشکل ترین صورتحال سے دوچار محسوس ہو رہے ہیں ۔ مسلم حکمرانوں، علماء، دانشوروں اور مصلحین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات پس پشت ڈال کر مسلم ملکوں کی آزادی برقرار رکھنے اور دنیا کو ایک نئی جنگ سے بچانے کے لئے متحد و منظم ہوں، مشترکہ لائحہ عمل بنائیں اور اس معاشی ترقی کے لئے کام کریں جو آج کے دور کا سب سے موثر ہتھیار ہے اور جس کے لئے نوجوانوں کو تعلیم اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ضروری ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جاگنا اور نئی حکمت عملی پر کام کرنا ہی ہو گا۔
تازہ ترین