• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر کے انتخابات اوربرٹش کشمیری عرض تمنا…خالد محمود جونوی

آزاد کشمیر میں21جولائی کو ہونے والے انتخابات میں اوورسیز کشمیریوں کی دلچسپیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت سارے قافلے اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے آزاد کشمیر جاچکے ہیں اور جو کچھ کسی مجبوری حالات کی وجہ سے وہاں جانے سے قاصر ہیں انہوں نے برمنگھم، مانچسٹر اور لوٹن سمیت دیگر شہروں میں جلسے منعقد کرکے ماحول کو گرم رکھا ہوا ہے۔ یہ انتخابات ایسے حالات میں ہورہے ہیں جب پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں اپنی مدت پورا کرنے جارہی ہے۔ ناقص طرز حکمرانی کے باعث آج اس پر تنقید ہورہی ہے۔ آہ کیا وقت تھا جب ایک نظریاتی کارکن پیپلز پارٹی سے اپنی نسبت رکھتے ہوئے فخر محسوس کیا کرتا تھا، مگر جب سے پاکستان میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک نئی پیپلز پارٹی نے جنم لیا ہے اس کے مضر اثرات آزاد کشمیر پر بھی پڑے ہیں۔ آج اس میں کس کو دوش دیا جائے کہ صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ پارٹی کے امیدوار پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے سے کترا رہے ہیں اور کئی امیدواروں نے ٹکٹ واپس کردیئے ہیں کہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے کے باعث انہیں حلقہ انتخاب میں بہت مشکلات اور تنقید سننے کو مل رہی ہے۔ انتخابی شیڈول کے اعلان ہونے تک اب تک پانچ وزراء نئے سیاسی گھونسلے تلاش کرنے چل پڑے ہیں جنہیں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں پارٹی سے نکال دیا ہے۔ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی ہمیشہ دو جماعتی نظام مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی کے درمیان غالب رہا لیکن مسلم کانفرنس کے بطن سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بطن سے تحریک انصاف کے جنم لینے سے یہ دو جماعتی نظام بکھر چکا ہے۔ آزاد کشمیر کے قریباً قریباً تمام حلقے ایسے ہیں جہاں ہمیشہ برٹش کشمیری ان کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ وہاں کے امیدواروں کو جتانے اور ہرانے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے اپنے آبائی علاقوں سے محبت اور وابستگی کے یہ جذبے خوب ہیں، مگر پختہ سیاسی سوچ و فکر رکھنے والے لوگ رائے دیتے ہیں کہ کیا یہی اچھا ہوتا کہ یہاں سے سیاسی نظام سے حاصل تجربات و مشاہدات کو وہاں منتقل کرکے ایک بہتر سیاسی و سماجی انقلاب محرک بنتے، مگر ظلم یہ ہے کہ ہم پورے پانچ سال وہاں کے کرپٹ سیاسی نظام پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر جب اصلاح احوال کا مرحلہ آتا ہے تو ہم بغیر سوچے سمجھےاسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ بجائے اصلاح کے ہم روز بروز لوٹ کھسوٹ کے نظام میںبری طرح جھکڑ چکے ہیں۔ منتخب نمائندوں کی کرپشن تو ایک طرف، ان کے اہلکار بھی پلک جھپکتے ہی کروڑوں کے مالک بن چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پارٹی سربراہوں نے نکال دی ۔ امیدواروں کو بہت تاخیر سے ٹکٹ جاری کیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہتر سیاسی منصوبہ بندی کرکے بہتر کردار و عمل کے لوگوں کو انتخابی میدان میں اتارا جاتا، مگر خریدو فروخت کے مکروہ دھندےکے باعث آخری مرحلے میں امیدواروں کا اعلان ہوا۔ جماعتی و نظریاتی وابستگی پس پشت ڈال کر ایسے لوگ مستحق قرار پائے جنہوں نے سب سے زیادہ بولی دی۔ کرپشن اگرچہ پہلےبھی ہوا کرتی تھی جس کی ہر کوئی مذمت کیا کرتا تھا، مگر اب شاید لوگوں کے جانچنے اور پرکھنے کے میزان بدل گئے ہیں جو جتنا زیادہ کرپٹ ہے وہ اتنا ہی ہوشیار گردانا جارہا ہے۔ ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر بھی احتجاج ہورہا ہے۔ زیادہ بغاوت مسلم لیگ ن لیگ سےہورہی ہے۔ جن کو خوش فہمی ہے کہ پاکستان میں ن لیگ کے برسراقتدار ہونے کے باعث ان کی جیت یقینی ہے، مگر مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کے انتخابی اتحاد کے باعث ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہر جگہ سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ن لیگ آزاد کشمیر کے سربراہ راجہ فاروق حیدر کو ناراض کارکنوں کو منانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ ٹکٹ کسی ایک کو ملتا ہے باقی کو قربانی دینی پڑتی ہے، مگر جس طرح کا رویہ وہ کارکنوں سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی جاکر شکایتوں پر بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ یہ رویے ہرگز قابل تحسین نہیں۔ انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ کارکن کسی بھی جماعت کی جان اور اثاثہ ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد اگرچہ ن لیگ کی قیادت انہی کے پاس ہی ہوگی، مگر وہ ن لیگ کی نہیں بلکہ ن لیگ کے ناراض اور باغی کارکنوں کی ہوگی۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے… جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
تازہ ترین