• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسات کا موسم یوں تو دنیا بھر کے تمام ممالک میں آتا ہے لیکن برصغیر پاک و ہند میں اس کا خصوصی طور پر انتظار کیا جاتا ہے کیونکہ شدید گرمی کے بعد جب بادل برستے ہیں تو انسانوں کے چہروں پر ہی نکھار نہیں آتا درختوں پر بھی بہار آجاتی ہے اور پرندے بھی چہچہانے اور ملہار گانے لگتے ہیں مغربی ممالک میں لوگ چھتریاں تان کر بارش میں سیر کے لئے نکل کر لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں بارشیں جہاں اپنے باسیوں کے لئے ٹھنڈی ہوائوں سے لطف اندوز ہونے کا سامان فراہم کرتی ہیں وہاں ان کے لئے زحمت کا سامان بھی بن جاتی ہیں کیونکہ ہماری حکومتیں بڑھتی ہوئی آبادی اور میگا ترقیاتی منصوبوں سے جنم لینے والے مسائل کا پیشگی تدارک کرنے پر توجہ ہی نہیں دیتیں، بڑے شہروں میں کچرے کے انبار اور 80سے 100سال تک نہ گلنے والے شاپروں کے ڈھیروں سے نکاس آب کیلئے بنائے نالے اٹ جاتے ہیں مگر ان کی صفائی کا سارا سال کوئی اہتمام نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جونہی بارش کا آغاز ہوتا ہے سارا ڈرینج سسٹم جواب دے جاتا ہے سڑکیں ایک بڑے تالاب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں اور چھوٹی گاڑیاں تو درکنار بڑی گاڑیوں کے لئے بھی گزرنا محال ہو جاتا ہے کراچی میں دو دن میں صرف 73ملی میٹر بارش نے شہریوں کے لئے بے پناہ مسائل پید کر دیئے ہیں لاہور میں ایک ہی بارش نے حکومت کے گڈگوررننس کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے دنیا کے کئی ممالک میں 400ملی میٹر سالانہ تک بارش ہوتی ہے مگر لوگوں کے معمولات زندگی میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومتیں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے اپنی مینجمنٹ اور گورننس کو بہتر بنائیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے محض دعوے نہیں بلکہ ایسا کام کر کے دکھائیں جس کے نتائج شہریوں کو خود نظر آئیں اور انہیں بتانا نہ پڑیں کیونکہ خوشبو وہی ہے جو اپنا وجود خود بتائے نہ کہ عطار کو اس کی خوبیاں بیان کرنی پڑیں۔
تازہ ترین