• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ ضرورت اور ایجاد کا باہمی تعلق ایک جملے’’ ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘کی صورت میں ہمیشہ کے لئے طے ہوچکا ہے مگر پچھلے کچھ عرصہ سے سائنس کی دو بہت ہی اہم ایجادات سے قریبی واسطہ پڑنے کی وجہ سے ضرورت اور ایجاد کے اس "ماں بیٹی" جیسے تعلق کے بارے ہم کچھ شک میں ضرور پڑ گئے تھے۔ چونکہ یہ قریبی واسطہ کچھ زیادہ خوشگوار نوعیت کا نہیں تھا اس لئے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ایجاد کے تمام بچے واقعی ضرورت ہی کی کوکھ سے پیداہوئے بھی کہ نہیں ۔ سوچا کہ ضروری نہیں ہر دفعہ حضرت انسان کو کوئی ضرورت پیش آئی ہو تو اس کے بعد اس کے رد عمل کے طور پر ایجاد منظر عام پر آئی ہو ۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پہلے کوئی چیز ایجاد ہوئی ہو اور پھر اس ایجاد کی کوکھ سے ضرورت نے جنم دیا ہو۔ اس صورت میں یہ مسئلہ تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ـ"ماں بیٹی"کے کردار الٹ ہوجاتے ہیں مگر منطقی طور پر دیکھا جائے تو یہ ناممکن بالکل نہیں ہے ۔ قارئین ہم معذرت خواہ ہیں کہ پہلے انڈے اور مرغی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ پہلے کون آیا، ہم نے ایک اور اصول پر تشکیک کا اظہار کرکے آپ کو نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ بہر حال ہم بتاتے چلیں کہ جن دو ایجادات کی وجہ سے یہ ساری کنفیوژن پیداہوئی ہے وہ لاؤڈ اسپیکر اور موبائل فون ہیں ۔ یقین جانیں ان دونوں چیزوں نے ہمارے شب و روز کو ایسے آگے لگارکھا ہے کہ ہمیں اپنا بھی ہوش نہیںہے ۔ لاؤڈ اسپیکر کے بارے میں تو سناتھا کہ شروع شروع میں لوگوں نے اسے شیطانی آلہ قرار دے کر اس کے خلاف فتوے بھی دیئے تھے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ایجاد کی اس زمانہ میں شاید ضرورت نہیں تھی۔ اگر ضرورت ہوتی تو اس کے استعمال کے خلاف فتوے جاری نہ ہوتے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ایجاد کے بعد اس کے استعمال کے بارے میں سوچا گیا ۔اس وقت تو اس کے استعمال کو حرام قراردے دیا گیا تھا مگر آج صورت حال یہ ہے کہ اس شیطانی آلہ کے غیرضروری استعمال کے آگے Amplifire Actکی قانونی دیوار کھڑی کرنی پڑی مگر قیدو بند کی یہ دیوار بھی کام نہ آسکی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہر دن کا آغاز بلکہ یوں کہئے کہ دراصل ہماری سحرخیزی انہیں دو چیزوں لاؤڈ اسپیکر اور موبائل فون کے مرہون منت ہے ۔ محلہ کی مسجد کے مولوی صاحب لاؤڈ اسپیکر کی آواز تیز کرکے ہمیں تہجد سے بھی بہت پہلے جگا کر’’ثواب دارین‘‘حاصل کرتے ہیں ۔ تہجد کے بعد تھوڑی دیر کے لئے ہمیںچھوٹا سا قیلولہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ مگر اسی اثناء میں قریب پڑے ہوئے موبائل فون پر گڈ مارننگ کے میسج آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ ایس ایم ایس تو رات کے پینڈنگ گڈ نائٹ والے بھی ہوتے ہیں ۔ ان میسجز کے بیچ کوئی ایک آدھ بھولی بسری کال بھی آجاتی ہے جسے ہم بند آنکھوں سے ہی کاٹ دیتے ہیں ۔ ہفتہ کے دو تین دن تو ایسے بھی ہوتے ہیںجب ان ایس ایم ایس کی تعداد کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ۔ جیسے جمعہ والے دن جمعہ مبارک کے میسج اور بعض اوقات جمعہ مبارک کے یہ میسج ہفتہ ، اتوار تک بھی چلتے رہتے ہیں ۔ خیر کوئی آدھا پون گھنٹہ بعد موبائل فون تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوتا ہے تو دوبارہ سے لاؤڈ اسپیکر آن ہوجاتا ہے ۔ یہ اب نماز کے بعد چندے والا سیشن ہوتا ہے ۔ جزاک اللہ ، سبحان اللہ یہ بھا محمد حنیف کے بیٹے نے اپنے جیب خرچ سے دس روپے دیئے ہیں۔ اللہ انہیں امتحان میں کامیاب کرے ، ماشاء اللہ محمد حنیف نے کتنی اچھی تربیت دی ہے اپنے بیٹے کو ۔ اور یہ بھائی غلام سرور نے سو روپے عطیہ کئے ہیں ۔ اللہ بیڑا پار کرے ۔ اللہ جنت میں گھر بنائے۔ ادھر ہم کروٹ پہ کروٹ لئے جارہے ہیں ۔ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ محمد حنیف کے بیٹے کو اسکول تو کیا بورڈ میں اوّل پوزیشن دلائے اور بھائی غلام سرور کو جنت میں ایک نہیں دو گھر ملیں مگر ہمیں تو چند گھنٹے آرام کرنے دیں ۔ تہجد کے وقت سے لے کر دن چڑھے تک یہ سلسلہ چلتا ہے ۔ دن چڑھے یہاں سے فارغ ہوتے ہیں تو موبائل پر ایس ایم ایس کی جگہ کالز لے لیتی ہیں ۔ ایک کالر کی چوتھی ، پانچویں کوشش پر ہم یہ سوچ کر فون اٹینڈ کرلیتے ہیں کہ کہیں مسلسل گھنٹیوں سے موبائل کی بیٹری ہی نہ ختم ہوجائے ، تو آگے سے ایک دور کے عزیز لائن پر ہوتے ہیں ۔ چھوٹتے ہی کہتے ہیں جناب خیریت تو ہے اتنا لیٹ اٹھ رہے ہیں ۔ اور پھر خیر خیریت کا لمبا سلسلہ۔ بڑی مشکل سے جان چھڑا کر تیار ہونے کے لئے واش روم میں جاتے ہیں ۔ گھنٹی بجنے کا سلسلہ یہاں بھی وقفے وقفے سے جاری ۔ دن کے وقت لاؤڈ اسپیکر سے محفوظ رہتے ہیں مگر موبائل بجنے کا عمل تواتر سے جاری رہتا ہے ۔اسی طرح جب دوپہر کو کام میں گوڈے گوڈے تک دھنسے ہوتے ہیں کہ فون کی کسی گھنٹی پر کال اٹینڈ کی تو آگے سے کوئی شخص اپنا تعارف کرائے بغیر خیر خیریت اور ہو ر سناؤ کی تکرار کئے جارہا ہے ۔ تنگ آکے پوچھا جناب کون بات کررہے ہیں ۔ آگے سے جواب آتاہے ہاں بڑے آدمی ہوگئے ہیں اب کہاں پہچانیں گے غریبوںکو ۔جناب کو شاید یاد نہیں کہ پانچ سال پہلے تیز گام ٹرین پر اکٹھے سفر کیا تھا ۔ ہم سوچنے لگے کہ دوچار ایسے اور’’ غریب‘‘آگئے تو ہماری خیر نہیں ۔ بہر حال شام تک یہ سلسلہ کم و بیش اسی رفتار سے جاری رہتا ہے ۔ کچھ تو ایسے مستقل مزاج کالر بھی ہوتے ہیں جن کے لئے آپ کے پاس صرف دو آپشن ہوتے ہیں ۔ یا تو آپ کال وصول کریں گے یا پھر آپ کے فون کی بیٹری ختم ہوگی۔ اگر آپ عارضی طور پر فون بندبھی کردیں گے مگر تھوڑی دیر بعد جب دوبارہ آن کریں گے تو اگلے چند سیکنڈ میں ان کی دوبارہ کال آجائیگی۔شام کو گھر آکر تھوڑی دیر کے لئے موبائل فون تھوڑا’’سستانے‘‘( کہ کرم فرماؤں کے آرام کا وقت ہوتا ہے)کے لئے خاموش ہوتا ہے تو اس بہانے ہم بھی سستانے کے لئے لیٹتے ہی ہیں کہ دوبارہ اسپیکر پر’’ثواب دارین‘‘کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ پھر اسپیکر اور موبائل وقفے وقفے سے رات گئے تک جاری رہتے ہیں تاآنکہ ہم نقاہت سے بستر پر گرتے ہیں اور پتہ نہیں رات کو کس وقت آنکھ لگ جاتی ہے ۔ ہمیں اس وقت ہوش آتا ہے جب صبح پھر لاؤڈ ا سپیکرکا ٹائم شروع ہوجاتا ہے ۔ لاؤڈ ا سپیکر اور موبائل کی یہ ایک اوسط دن کی کار گزاری ہے ۔ ہاں مہینے میں ایک آدھ دن جب کوئی خاص روحانی محفل ہوتو اسپیکر کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ اسی طرح عید، شب برات وغیرہ پر موبائل فون پر میسجز اور کالز کی رفتاربھی کچھ مزید تیز ہوجاتی ہے ۔
اگلے دن ہم ان ایجادات کے تدارک کے بارے میں کچھ سوچ رہے تھے تو خیال آیا کہ جہاں Amplifire Act کا قانون لاؤڈ اسپیکر کا کچھ نہیں بگاڑ سکا وہاں بندہ ناچیز کیا کرلے گا۔ البتہ سوچا کہ موبائل فون سے نجات تو کسی حد تک اپنے بس میں ہے اس لئے صبح اٹھتے ہی اس سے نجات حاصل کرنی ہے ۔ لے دے کے اس میں ایک’’اعجاز پلمبر‘‘کا نمبرSave تھا جس کی وجہ سے اس ایجاد کی ساری مصیبتیں برداشت کررہے تھے کہ چلو تصویر کائنات میں کچھ رنگ تو ہے مگر شومئی قسمت کہ اگلے دن رات کو جب ہم تھوڑا جلدی سوگئے تو ’’اعجاز پلمبر‘‘کی بار بار مس کال کے جواب میں بیوی نے ہمارے موبائل سے خود اس کے نمبر پرکال کی تو سارا بھانڈا پھوٹ گیا اور اسـ’’ پلمبر‘‘ کا چیپٹر بھی مجبوراً بند کرنا پڑا کیونکہ گھر کا سکون بہر حال بہت اہم ہوتا ہے !!
تازہ ترین