• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدق صدیقی کی جانب سے دیئے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ کابل کے مغربی علاقے میں دہشت گردوں نے پولیس کیڈٹس کے قافلے پر دو خودکش حملے کئے جس کے نتیجے میں 40افراد جاں بحق اور 58زخمی ہو گئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دھماکے طالبان کی کمزوری کی عکاسی کرتے ہیں وہ میدان جنگ میں ہار کر اس قسم کے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتار دینا بلاشبہ ایک ایسا جرم ہے جس کا کوئی بھی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان ہی نہیں بلکہ عوام بھی اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں لیکن جناب اشرف غنی کی اس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ طالبان ہزیمت سے دوچار ہو کر دہشت گردی کی اس نوع کی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں کیونکہ ابھی بمشکل ایک ہفتہ گزرا ہے کہ طالبان نے کینیڈین سفارتخانے کے 14نیپالی سیکورٹی گارڈ پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا تھا۔ اسی روز یعنی20جون 2016کو ہی 11دوسرے افراد کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ صدر اوباما نے حال ہی میں افغانستان میں متعین امریکی افواج کو مقامی جنگجوئوں سے مل کر طالبان کو نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے جو تمام غیرملکی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حالات سدھرنے میں نہیں آ رہے اور لگتا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ بھی مذاکرات کا راستہ چھوڑ کر تصادم کا راستہ ہی اپنانے پر آمادہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چار فریقی کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا اس کو آگے بڑھایا جائے کیونکہ اس مسئلے کا واحد حل یہی نظر آتا ہے۔
تازہ ترین