• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب ملک اور عجیب قوم ہے ۔ کوئی صاحب اٹھ کر کوئی ڈگڈگی بجا لیتا ہے اور پھر ساری سیاست اور پوری صحافت بغیر سوچے سمجھے اس جانب چل پڑتی ہے۔ نہ کوئی تحقیق کی زحمت گوارا کرتا ہے اور نہ کوئی دلیل مانگتا یا مانتا ہے ۔ دو کیمپ بن جاتے ہیں اور پھر صحافی ہو یا سیاستدان، کسی ایک کیمپ میں بیٹھ کر مورچے سنبھال لیتا ہے ۔ تازہ ترین ڈگڈگی کسی نے یہ بجائی کہ مولانا سمیع الحق چونکہ طالبان کے سرپرست ہیں ، اس لئے ان کے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ روپے کی امداد تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے طالبان کی بالواسطہ مدد ہے ۔ جواب میں عمران خان صاحب نے یہ ڈگڈگی بجا دی کہ اصل مقصد مدارس کو مین اسٹریم یا قومی دھارے میں لانا ہے اور اب بلاسوچے سمجھے ان کے حامی اور ترجمان یہ ڈگڈگی بجانے لگے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق اس خطے میں جہاد کے بانی ہیں اور نہ افغان جہاد یا طالبان کی جدوجہد میں ان کا کوئی براہ راست حصہ رہا ہے ۔ اس خطے میں جہادی سوچ کو جماعت اسلامی نے فروغ دیا ہے ۔ گلبدین حکمتیار ، برہان الدین ربانی اور یونس خالص وغیرہ اخوانی تھے ۔ اسی طرح استاد سیاف سلفی تھے ۔ ان لوگوں کا اصل رابطہ اور تعلق جماعت اسلامی سے رہا ۔ جماعت اسلامی نے جہادی لٹریچر تخلیق بھی کیا اور پھیلایا بھی ۔ جماعت اسلامی اورجمعیت کے کارکن افغان جہاد میں حصہ بھی لیتے رہے ۔ قاضی حسین احمد کے جلال آباد کے محاذپر اسلحہ سمیت پھرنے کی ویڈیو بھی موجود ہے ۔ جان محمد عباسی جیسے جماعت اسلامی کے بعض رہنمائوں کے بچے بھی وہاں کام آئے لیکن مولانا سمیع الحق کبھی خود افغانستان جہاد میں شرکت کے لئے گئے اور نہ ان کے کسی بیٹے نے وہاں جانے کی زحمت گوارا کی ۔ جماعت اسلامی کے حدیقۃ العلوم جیسے بعض مدارس میں مجاہدین کے مراکز رہے لیکن دارلعلوم حقانیہ میں کبھی باقاعدہ جہادی مرکز قائم نہیں رہا۔اب اگر جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہونے پر اعتراض نہیں تو اس حکومت کی طرف سے مولاناسمیع الحق کے مدرسے کو تیس کروڑ روپے دینے پر اعتراض کیوں ؟۔ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے طالبان کے ظہور کے بعد جماعت اسلامی پس منظر میں چلی گئی جبکہ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمان کی بھی افغانستان سے دلچسپی اور روابط میں اضافہ ہوگیا لیکن وہ سارارابطہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کے واسطے سے تھا۔ ان سے پہلا رابطہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دست راست نصیراللہ بابر کا استوار ہوا تھا اور وہ کئی مرتبہ آن ریکارڈ کہہ چکے تھے کہ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمان کا تب تک طالبان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا ، جب تک کہ پاکستان کی مقتدر قوتوں نے نہیں بنایا تھا۔ جب مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ، مقتدر قوتوں نے کرنل امام صاحب کے منصوبے کے مطابق پہلا وفد قندھار بھجوایا تو اس میں میاں نوازشریف کے معاون خصوصی عرفان صدیقی صاحب بھی شامل تھے ۔ طالبان کو پہلی مرتبہ پاکستان میں عرفان صدیقی صاحب نے’’ تکبیر‘‘ رسالے میں اپنے مضامین کے ذریعے متعارف کرایا اور مولانا سمیع الحق بہت بعد میں میدان میں آئے۔ یہ ’’خوشخبری‘‘ اس قوم کو پہلی بار صدیقی صاحب نے ہی اپنے کالموں کے ذریعے دی کہ افغانستان میں ملامحمد عمر کی قیادت میں خلفائے راشدین کی طرح کی حکومت قائم ہوئی ہے جبکہ اس وقت قاضی حسین احمد مرحوم طالبان کے ظہور کو امریکی سی آئی اے کا کارنامہ قرار دے رہے تھے ۔ بعد میں مقتدر قوتوں نے افغان طالبان کے حق میں جس طرح دیگر مدارس کو استعمال کیا ، اسی طرح وہ دارالعلوم حقانیہ کو بھی استعمال کرتے رہے لیکن اس حوالے سے کراچی کے بعض مدارس کا کردار دارالعلوم حقانیہ سے بہت زیادہ ہے ۔ بعض طالبان لیڈر ضرور دارالعلوم حقانیہ میں پڑھے ہیں لیکن وہاں تو مولانا فضل الرحمان بھی پڑھتے رہے ۔ مولانا فضل الرحمان اور ملامحمد عمر کی کونسی چیز مشترک ہے ، جو ملامحمد عمر اور مولانا سمیع الحق کی مشترک ہوگی ۔ مولانا فضل الرحمان اگر آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی طرح کے سیاستدان ہیں تو مولانا سمیع الحق صاحب بھی عمران خان اور پرویز خٹک کی طرح کے سیاستدان ہیں اور جس طرح طالبان اور افغانستان کے ایشو کو پاکستان کے دیگر سیاست دانوںنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا، اسی طرح مولانا سمیع الحق نے بھی استعمال کیا۔ جب انہیں کہا گیا کہ دفاع افغانستان کونسل بنائو تو انہوں نے بنالی۔ پھر جب انہیں کہا گیا کہ اب اس کا نام دفاع افغانستان و پاکستان کونسل رکھ دو تو انہوں نے رکھ دیا۔ پھر جب انہیں کہا گیا کہ دفاع پاکستان کونسل کو متحدہ مجلس عمل میں تبدیل کرلو تو انہوں نے ایسا کرلیا۔ پھر جب سیاست کی بات آئی اور اس پر مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد صاحب قابض ہوگئے تو انہوں نے متحدہ مجلس عمل چھوڑ دی۔ پھر جب ڈرون حملوں کے خلاف مہم کے لئے دوبارہ دفاع پاکستان کونسل کی ضرورت پڑی تو انہیں کہا گیا کہ دوبارہ بنا لو اور انہوں نے دوبارہ بنا لی۔ وہ مدارس جو طالبان کے حق میں استعمال ہوئے ، اگر تعداد کے لحاظ سے دیکھے جائیںتو زیادہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے ہیں لیکن ایک غلطی مولانا سمیع الحق صاحب سے خود سرزد ہوئی اور وہ یہ کہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اس جھوٹی خبر کو نہیں جھٹلایا بلکہ خود پھیلایا کہ ملامحمد عمر ان کے مدرسے میں پڑھے ہیں ۔ میرا دعویٰ ہے اور اس کو کوئی غلط ثابت کر سکا تو میں کسی بھی سزا کے لئے تیار ہوں کہ ملامحمد عمر نہ تو دارالعلوم حقانیہ میں پڑھے ہیں اور نہ کبھی ایک دن کے لئے یہاں آئے ہیں ۔ اسی طرح ملا اختر منصور اور ملا ہیبت اللہ بھی یہاں نہیں پڑھے ہیں ۔ جہاں تک افغان طالبان کی حمایت کا تعلق ہے تو میاں نوازشریف نے نائن الیون سے قبل بطور وزیراعظم باجوڑ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں طالبان جیسا نظام لانا چاہتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں بھی طالبان کی حمایت کی پالیسی جاری تھی اور ان کے دست راست نصیراللہ بابر کہا کرتے تھے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں ۔ کسی نے سیاسی ضرورت کے تحت طالبان کی حمایت پہلے ترک کردی اور کسی نے بعد میں ۔ جہاں تک پاکستان کے طالبان کا تعلق ہے تو ان میں بعض دیوبندی پس منظر کے حامل لوگ مولانا فضل الرحمان کی بھی قدر کرتے تھے اور مولانا سمیع الحق کی بھی لیکن بعض ان کے شدید ترین مخالف بھی تھے ۔ بیت اللہ محسود ان دونوں کی قدر کرتے تھے لیکن قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو یہ دونوں رہنما زہر لگتے تھے ۔ اسی طرح ملا فضل اللہ اور عبدالولی عرف عمر خالد بھی ان دونوں کو پسند نہیں کرتے ۔ بے نظیر بھٹو کے قاتل اگر مولانا سمیع الحق کے مدرسے میں ٹھہرے تھے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ ان کی مرضی سے ٹھہرے تھے یا ان کو علم تھا۔ خود جب طالبان کے حامی ایک شیخ الحدیث کو مولانا سمیع الحق نے فوج کے خلاف باتیں کرنے پر خطبہ دینے سے منع کیا تو حکیم اللہ محسود نے انہیں پیغام بھیجا کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا اور مولانا نے نہ صرف ان کا خطبہ بحال کرایا بلکہ مولانا فضل الرحمان کے پاس فریاد لے کے آئے کہ ان کی جاں بخشی کرائی جائے ۔ پھر ان دونوں نے مل کر کچھ خاص لوگوں کو طالبان کے پاس بھیجا اور بڑی مشکل سے بچ بچائو ہوگیا۔ جہاں تک عمران خان اور مولانا سمیع الحق کا طالبان کی حمایت کی بنیاد پر ایک ہونے کے تاثر کا تعلق ہے تو عمران خان کو یہودی ایجنٹ کے لقب سے پہلی بار دارالعلوم حقانیہ کے میگزین نے نوازا ۔ اسی طرح عمران خان اور طالبان رہنمائوں میں بھی کوئی قدر مشترک نہیں اور وہ اگر طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے رہے تو ان قوتوں کے کہنے پر کرتے رہے جن کے کہنے پر دیگر صحافی اور سیاستدان کرتے رہے ۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے تو کئی مرتبہ جاں بخشی کے لئے پاکستانی طالبان کو بھتہ بھی دیا۔بات سیدھی سادی یہ ہے کہ پرویز خٹک صاحب کا تعلق بھی نوشہرہ سے اور مولانا سمیع الحق کا بھی ۔ نوشہرہ میں اس وقت دونوں کی سیاسی صف ایک ہے ۔ اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے مولانا کے کام آتے ہیں اور مولانا ان کے ۔ جب بجٹ میں دارالعلوم حقانیہ کے لئے رقم مختص کی جارہی تھی تو عمران خان صاحب کو علم بھی نہیں تھا۔ بعد میں جب اسے ایشو بنا لیا گیا تو خان صاحب نے یہ دلیل تراش لی کہ یہ رقم مدارس کے مین اسٹریمنگ کی غرض سے دی گئی ہے ۔ حالانکہ یہی مقصد ہوتا تو پھر دیگر مدارس کیوں نہیں ۔ مولانا سمیع الحق ذاتی طور پر عمران خان کی طرح مین اسٹریم کے سیاستدان ہیں جب کہ ان کے مدرسے سے متصل حقانیہ ماڈل اسکول پہلے سے قائم ہے ۔ پھر ان مدارس کو کیوں نہیں دیا جارہا کہ جو واقعی مین اسٹریم سے دور ہیں ۔ پولیو مہم میں مولانا کی حمایت کے عذر میں بھی کوئی وزن نہیں ۔ خان صاحب شاید اس وقت مین سٹریم سیاست میں نہیں آئے تھے لیکن ایم ایم اے کی حکومت میں پولیو کے حق میں پوسٹرز لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کئے گئے تھے اور وہ اشتہارات اب بھی اس وقت کے اخبارات کے ریکارڈ میں موجود ہوں گے کہ جن میں قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں ۔ اب جب ایک طرف پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی طرف سے دارالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ روپے کی امداد کا تذکرہ جب بتکرار اس وہم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ یہ تو طالبان کی بالواسطہ مدد ہے تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے اور پھر جب صفائی میں خان صاحب کے عجیب وغریب دلائل سنتے ہیں تو دوبارہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے ۔ کہاں طالبان اور کہاں عمران خان ۔ کہاں مولانا سمیع الحق اور کہاں ملا محمد عمر ۔ اگر مسلم لیگ نون کی حکومت میں عرفان صدیقی وزیر ہوسکتے ہیں، اگر پی ٹی آئی میں مفتی عبدالقوی اور مفتی سعید جیسے مفتی عہدیدار ہوسکتے ہیں، اگر بے نظیر بھٹو کی حکومت میں نصیراللہ بابر وزیرداخلہ ہوسکتے ہیں اور ا تو مولانا سمیع الحق کے مدرسے میں بعض ملامحمد عمر کے سچے ہمدرد اور پیروکار طالبان ہوسکتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر مولانا سمیع الحق کو طالبان سے جوڑنا اسی طرح کی زیادتی ہے جس طرح کہ عمران خان کو طالبان سے جوڑنا۔
تازہ ترین