• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان کھلم کھلا تجارت کا موضوع وقتاً فوقتاً اُٹھتا رہتا ہے۔ اب پھر یہ ذکر چھڑا ہوا ہے۔ تجارت بالعموم دونوں ممالک میں فائدے میں ہے۔ لیکن برابری کے طور پر ۔ اس ضمن میں پاکستان بھارت معاشی مماثلت کا جائزہ لیا جائے تو صریحاً بھارت کا پلہ بھاری ہے۔ اس کی معیشت کا حجم بڑا ہے۔ اس کے پاس وسیع مارکیٹ ہے۔ پیداواری حجم زیادہ اور پیداواری لاگت کم۔ بالعموم لاگت پاکستان کے مقابلے میں ایک تہائی ہے، جبکہ معیشت پاکستان کے مقابلے میں دس گنا بڑی ہے۔
بھارت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کی مجموعی پیداوار اربوں امریکی ڈالر ہے۔ بھارت کا شمار دس صنعتی ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار مجموعی پیداوار کا بیس فیصد ہے۔ اس کا صنعتی شعبہ برآمدات کا 60فیصد حصہ فراہم کرتا ہے، جس میں بیس فیصد برآمدات انجینئرنگ کے شعبہ سے ہیں۔ اس میں موٹر سازی بھی شامل ہے۔ صرف اسی کا برآمد کا حجم پاکستان کی تمام تر برآمدات کے مساوی ہے۔ پاکستان کی انجینئرنگ کی مجموعی مقامی پیداوار ( جی، ڈی، پی) کی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ صنعتی ڈھانچے کی لاگت امدادی وسائل کی وجہ سے کم ہے۔ ان امدادی وسائل کی براہِ راست آمدنی مستثنیٰ ہے۔ تنخواہ کا ڈھانچہ کم اور دیگر بلاواسطہ اور بالواسطہ لاگتیں بھی کم ہیں۔ صنعتوں کو کثیر سرکاری امداد حاصل ہے۔ جب تک معاشرتی ڈھانچوں کی لاگتوں ، رعایتوں ، امدادی رقوم اور ٹیکس کے نظام ، میں پیش پیش ہے۔ مزیدبرآں بھارت نے اپنے ملک میں ’’ نان ٹیرف بیرر‘‘ لگا رکھے ہیں۔ یعنی وہاں سے برآمدات تو کھلم کھلا ہو سکتی ہیں۔ لیکن درآمدات نہیں۔ جو چیز بھارت میں تیار ہو رہی ہے۔ درآمد نہیں ہو سکتی اور اگر درآمد کرنا ہی ہو تو بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان آزادانہ درآمد و برآمد کی مارکیٹ ہے۔ غرض یہ کہ جب تک ہر شعبے میں تقابل نہ ہو پاکستان کس طرح بھارت سے تجارت میں توازن قائم کر سکے گا اور اپنی صنعتوں کو غیرصحت مند مقابلے سے محفوظ رکھ سکے گا!
یہ ہیں چند بنیادی امتیازات ، جن سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ ٹیکس گزار بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ جلد یا بدیر، یہ غیرمعمولی خامیاں دور کرلی جائیں گی، ورنہ سمجھا جائے گا کہ اقتصادی پیکیج محض ایک دکھاوا ہے جو کسی طور بھی صنعتی شعبہ کی ترقی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا ۔ جب تک ایسا اقتصادی پیکیج نہ دیا جائے جو صنعتی شعبہ کی لئے سود مند نہ ہو، اس شعبہ سے بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی! نہ ہی بھارت سے ہم پلہ تجارت!
آٹھویں آئینی ترمیم سے تیرہویں آئینی ترمیم کو عام طور پر سراہا گیا ہے۔ یہ ترمیم اسمبلی میں متفقہ طور پر تسلیم کر لی گئی ، جس کی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ یہ یقیناً بڑی کامیابی ہے ، کیونکہ اس وجہ سے سابقہ حکومتیں اپنی آئینی معیاد پورا نہ کرسکیں۔ آٹھویں ترمیم کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترمیم نے مارشل لاء کو روک رکھا تھا جو ملک میں تقریباً پچاس برسوں سے بھی زیادہ عوامی نمائندگی پر مقتدر تھا۔پاکستان کا آغاز بہرحال پارلیمانی حکومت سے ہوا۔ تاہم جلد اس پر مارشل لاء مسلط ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے سویلین مارشل لا سمیت وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔ یہ مفروضہ زبان زدِ عام ہے کہ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت پر مترجح ہے۔ بھارت جمہوری ملک ہے جو شروع سے لے کر اب تک قائم و دائم ہے۔ جبکہ پاکستان متعدد نظاموں کی زد میں رہا ہے۔
تاہم پاکستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ امر قابلِ غور ہے کہ آیا یہ مفروضہ صحیح ہے یا غلط۔ اس پر ایک سرجن، ایک انجینئر اور ایک سیاستدان کا قصہ صادق آتا ہے، جس میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ ان میں سے کس کا پیشہ سب سے قدیم ہے۔ سرجن کے مطابق سرجری اس لئے سب سے قدیم ہے کہ حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور یہ عمل سرجری ہی سے ممکن تھا۔ انجینئر کا کہنا تھا کہ آغازِ کائنات میں کوئی نظام موجود نہ تھا ایک افرا تفری اور بد نظمی کا عالم تھا اور اسی کی خدمات کے ذریعہ یہ نظام کائنات وجود میں آیا۔ اس پر سیاستدان سے نہ رہا گیا اور اس نے پوچھا کہ ان کے خیال میں وہ تمام افراتفری اور بد انتظامی کس نے پھیلائی تھی؟ اگر پاکستان کا آغاز پارلیمانی حکومت سے ہوا تو پھر مارشل لا اور پھر بعد میں یہ آٹھویں ترمیم کا وجود کیسے عمل میں آیا۔ سوال یہی ہے کہ ملک میں اس افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار آخر کون تھا؟ جمہوریت کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو غور کرنا ہوگا کہ مارشل لا او ر متعدد ترامیم پر منتج ہونے والا یہ انتشار کیسے پیدا ہوا؟ اس مسئلہ پر مختلف نقطہ ہائے نظر میں چاہے کتنا ہی اختلاف پایا جائے، یہ ملک مزید انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ عوام سیاسی استحکام اور اقتصادی و معاشرتی بہبود کے علاوہ کسی اور مسئلہ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بھٹو کے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرہ اور میاں نواز شریف کی حالیہ کامیابی اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً میاں صاحب اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن پر ماضی کے مقابلہ میں اب کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یقیناً میاں صاحب قومی مفاد میں اس صورتِ حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ من موہن سنگھ سے گفتگو اور تعلقات میں دوری ان حالات کی ضامن ہے۔ جس دوری کا آج کل پرچار بھی ہو رہا ہے!
سیاسی استحکام ، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے جب تک ایک واضح نظریہ سامنے نہ ہو‘ منزل کی سمت راہ تعین اور مقصد سے ہم آہنگی نہ ہو ۔ ساتھ ہی ایک جامع منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کےلئے پُر خلوص کوششیں لازم ہیں۔ محض اسمبلی میں اکثریت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مقصد کے ساتھ اخلاص بھی درکار ہے۔ عوام کی مجموعی اقتصادی و معاشرتی خوشحالی سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتی ہے۔ پاکستان کے معاملہ میں کئی عناصر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں آزاد معیشت کا نعرہ اور ملکی معیشت میں استطاعت ہونے کے باوجود بھارت سے تجارت کی بات شامل ہے۔ کشمیر کا حل بھی تعطل کا شکار ہے اور بھارت سے پانی کا مسئلہ بھی۔ ان مسائل کے علاوہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل مشرف تک پاکستان نے ترقی یافتہ ممالک پر انحصار کیا ہے۔ پاکستان کا بنیادی اقتصادی ڈھانچہ ایک امریکی گروپ کے ماہرین کا تیار کردہ ہی ہے اور بنیادی طور پر درآمدی متبادل صنعت پر منحصرہے جو کہ مقامی خام مال اور مرکزی اقتصادی، معاشرتی اور طبعی انفرااسٹرکچر پر انحصار کرتی ہے ۔ اس وقت کا اقتصادی پیکیج بھی غیر روائتی اور منافع بخش پیداوار کی برآمدات کے لئے سازگار نہیں تھا۔ آج بھی صورتِ حال کم و بیش وہی نظر آتی ہے۔ صنعتوں کے لئے آج بھی موثر منصوبہ سازی نہیں کی جاتی جو کہ ملک میں دولت کی پیداوار اور روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ زرِ مبادلہ کماتی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ناکام برآمد کے طور پر روپے کی قیمت کو کم کیا ہے۔ جو سال بہ سال قرضوں میں اضافہ کاباعث بنا ہے اور جس کے نتیجے میں دفاعی اخراجات سے بھی زائد رقم قرضوں کی واپسی پر خرچ ہو رہی ہے۔ اب پاکستان قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لینے کے لئے مجبور ہے ۔ یہ امر نگراں دور حکومت میں بھی جاری رہا ۔ قرضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ نے معیشت کو اس قدر ناتواں بنا دیا ہے کہ شائد ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے! بھارت میں صورتِ حال اس امر کے منافی ہے۔
ڈی ویلیویشن
بھارت کی کرنسی نسبتاً قائم و دائم ہے ۔ لیکن پاکستان میں یہ اتار چڑھائوٗ کا شکار رہتی ہے۔ مثلاً ورلڈ بینک اب پھر کہہ رہا ہے کہ پاکستانی روپے کی قیمت اس کی اصل پیداواری قیمت سے زائد ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر اس کی قدر میں کمی کی ضرورت ہے جبکہ گزشتہ سال ہی روپے کی قدر میں کمی کی گئی ہے۔ ’’ قرض چکاؤ اسکیم‘‘ میں ملین ڈالر جمع ہو ئے جن میں 75فیصد رقم وہ ہے جو موجودہ بین الاقوامی تجارتی شرح سے زیادہ سود کے وعدے پر حاصل کی گئی ہے۔
ہاورڈ بزنس اسکول کے پروفیسر مائیکل پورٹر کا کہنا ہے....’’ اگر اقتصادی حل کرنسی کی قیمت میں کمی ہے تو پھر اقتصادی پالیسی میں کوئی بنیادی نقص ضرور ہے‘‘۔ یہی بات کچھ عرصہ سے بعض پاکستانی بھی کہتے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ امر ضروری ہے، کہ اقتصادی پالیسی کی ساخت پر صحیح معنوں میں غور کیا جائے اور ایسا حل تلاش کیا جائے جس کے نہایت کامیابی کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسی کثیر الاقوامی کارپوریشنیں موجود ہیں ، جو مقامی سطح پر نتیجے میں پاکستانی معیشت کرنسی کی قدر میں بار بار کمی سے محفوظ ہو جائے۔ مقامی سرمایہ کاروں کا ایک پر عزم گروپ بھارت کی طرح صنعتکاری کے ذریعہ عالمی سطح پر مبرا ہونے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اور جو بھارت کی طرح پر عمل ہو سکتی ہیں مگر:
اگر ایں مکتبوں اور ہمیں ملک:کارِ طفلاں تمام خواہد شد بہرحال اُدھر بین الاقوامی اور بالخصوص جاپانی کمپنیو ں نے گزشتہ پچاس برسوں میں عظیم باب رقم کیا ہے ۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی ان کارپوریشنوں کے قدم پہنچے ہیں، انہوں نے مقامی طور پر صنعت کو فروغ دیا ہے ۔ اگر انہیں پاکستان میں سازگار ماحول موجود ہو تو وہ یہاں بھی دہی کارنامہ سرانجام دے سکتی ہیں۔ حال ہی میں ہانگ کانگ میں ہاورڈ بزنس اسکول کے بین الاقوامی اجلاس سے ختاب کرتے ہوئے، مائیکل پورٹر نے مزید کہا کہ ’’ محض قدرتی وسائل کی افراط ، سستی افرادی قوت، آبادی کا حجم یا فوجی قوت سے ہی کوئی معیشت پنپ نہیں سکتی، بلکہ پیداواریت اس کا منبع ہے۔ اور یہ اشیاء کی قدر میں اضافہ کرنے ہی سے ممکن ہے۔ مینجمنٹ کے تین بنیادی ارکان یعنی لاگت میں کمی، کارکردگی میں اضافہ اور موثر طریقہ کار انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
یہ اہم نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ زیادہ اہم ہے کہ اسے کیسے کرنا ہے۔ انفرادیت کی تخلیق ہی اصل کام ہے ۔ اشیا ء کی قدر میں اضافہ ہی درحقیقت کامیابی کی ضمانت ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کیلئے واحد راستہ ایسا قومی ماحول ہے جو کاروبار کوفروغ دے۔ دنیا مقابلے کا میدان ہے، صرف وہی اس میدان میں اتر سکتا ہے جس کے پاس اعلیٰ معیار ہو ۔ ایسا ملک ہی اپنے عوام کو ایک بہتر زندگی کا معیار فراہم کرسکتا ہے۔ یہ صورتِ حال صریحاً بھارت کے ہاں تو ہے کیا پاکستان بھی اس امر پر فخر کرسکتا ہے؟
ماہرین ملک کے باہر ہیں ملک کے اندر رہ کر دولت میں اضافہ کا موقع فراہم کریں ۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے کاش کہ بھارت کے طرح پاکستان بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے خود اپنے طرز عمل کی اصلاح کر سکے۔ پاکستان اور بھارت کی آزادانہ تجارت کا مسئلہ جو آج کل زٰیرِ غور ہے۔ ان سب امور پر مبنی ہے۔ مگر پاکستان کی حالت تو یہ ہے کہ:
چلتا ہوں تھوری دور ہر اک راہ رو کے ساتھ
پر جانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
تازہ ترین