• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر عافیہ سے کریم خان تک ایک ہی کہانی ہے تاہم کریم خان کی دسویں دن بازیابی سے پتہ چلتا ہے کہ حالات کچھ تبدیل ضرور ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں گیارہ سال پہلے ان کے تین معصوم بچوں سمیت جس طاقت کے اشارے پر اغواء کیا گیا، راولپنڈی میں فری لانس صحافی کریم خان کے اغواء کی پانچ فروری کو ہونے والی واردات کے پیچھے بھی عالمی مبصرین کے مطابق اسی طاقت کا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کو اچک لے جانے کے لئے بھی مبینہ طور پر ملکی تنظیموں کا نیٹ ورک استعمال ہوا اور یہی صورت کریم خان کے معاملے کی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس گمان کو تقویت اس حقیقت سے ملتی ہے کہ بدھ بارہ فروری کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ نے اس مقدمے کی اگلی سماعت پر کریم خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم خفیہ ایجنسیوں کو دیا تھا۔ دونوں معاملات میں مزید مماثلت یہ ہے کہ عافیہ کا جرم بھی وقت کی سپرپاور کی بے انصافیوں کو بے نقاب کرنا تھا اور ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے گھرانے کے سربراہ کریم خان بھی انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے تعاون سے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ اس وحشیانہ عمل کا تجربہ انہیں بذات خود ہوا۔ان کا بیٹا اور بھائی چار سال پہلے وزیرستان میں اکتیس دسمبر2009ء کو اپنے گھر پر ڈرون کا شکار ہوئے جبکہ وہ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے۔ کریم خان اس کے بعد سے عدلیہ کے ذریعے انصاف کے حصول اور ڈرون حملوں کے دوسرے متاثرین کو منظم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے بھائی اور بیٹے کی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاکت پر حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ کررکھا ہے ۔ کریم خان کے وکیل شہزاد اکبر نے، جو بنیادی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں، ایک قانونی نوٹس اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو بھی بھیجا تھا جس میں سی آئی اے پر ڈرون حملوں کے ذریعے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کریم خان کی تحریک کیلئے راہیں اس وقت کشادہ ہوئیں جب اکتوبر2012ء میں ان کی ملاقات کوڈ پنک (Code Pink) نامی امریکی خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے وفد سے ہوئی جو ڈرون حملوں کے حقائق جاننے کیلئے وزیرستان پہنچا تھا۔2002ء میں قائم ہونے والی یہ تنظیم اپنا تعارف ان الفاظ میں کراتی ہے ’’ امن اور سماجی انصاف کے قیام کی خاطر عوامی بنیادوں پر اٹھنے والی تحریک جس کا مقصد امریکی پیسے سے جاری جنگوں اور قبضوں کو ختم کرانا ، عالمگیر فوج گردی کو چیلنج کرنااور امریکی قوم کے وسائل کوصحت عامہ، تعلیم ، ماحول دوست ملازمتوں اور زندگی کی ضامن دوسری سرگرمیوں کی جانب دوبارہ موڑنا ہے‘‘۔یہ تنظیم ڈرون حملوں کو بند کرانے کیلئے خاص طور پر سرگرم ہے۔
’’ڈرون وار فیئر: کلنگ بائی ریموٹ کنٹرول‘‘ نامی کتاب لکھنے والی کوڈ پنک تنظیم کی بانی Medea Benjamin نے اپنی ایک تازہ تحریر میں بتایا ہے کہ کریم خان نے کوڈ پنک کے وفد کو اپنے گھر کی تباہی کی دلدوز داستان سنائی ۔انہوں نے ان خبروں کی قطعی تردید کی کہ ان کے گھر پر ڈرون حملہ طالبان کمانڈر حاجی عمر کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ کریم خان کا کہنا تھا کہ حاجی عمر پورے گاؤں میں کہیں موجود نہیں تھا۔کریم خان نے ڈرون حملوں کے خلاف رپورٹ درج کرانے کے بعد حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کے مقامی سربراہ کو اس وقت تک ملک چھوڑنے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ اپنے خلاف عائد کئے گئے الزامات کا جواب نہ دے دیں،اس کے باوجود اس شخص کو پاکستان سے نکل جانے دیا گیا تاہم کریم خان نے ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو قانونی جنگ لڑنے کیلئے منظم کیا اور پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس سلسلے میں مقدمات دائر کئے۔
کوڈ پنک سے رابطے نے مغربی دنیا تک کریم خان کی رسائی ممکن بنائی جس کے نتیجے میں اس مہینے کی 15 تاریخ کو انہیں یورپی پارلیمنٹ کے برطانوی، جرمن اور ولندیزی ارکان کو پاکستان میں ڈرون حملوں سے جنم لینے والے انسانی المیے کی تفصیلات سے آگاہ کرنا تھا لیکن پانچ فروری کو رات کے آخری پہر پولیس کی وردی اور سادہ لباس میں ملبوس پندرہ بیس افراد ان کے گھر پر آئے اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔کریم خان کی بیوی کے بقول اغواء کنندگان نے نہ تو اپنی شناخت ظاہر کی نہ یہ بتایا کہ وہ اس کے شوہر کو کہاں لے جارہے ہیں۔کوڈ پنک کی بانی بنجامن کہتی ہیں ’’یہ کتنی المناک ستم ظریفی ہے کہ ایک شخص جس کے پیارے سی آئی اے کے اُس ڈرون پروگرام کے ذریعے قتل کر دیئے گئے جس کی مذمت حکومت پاکستان بھی کرتی ہے، اسی حکومت نے اس شخص کو اغواء کرلیا ہے۔ اس بارے میں ہم نے جن پاکستانیوں سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام صرف امریکہ کے حکم پر عمل میں آسکتا تھا جو نہیں چاہتا کہ کریم خان یورپ میں امریکی پالیسی پر بات کریں‘‘۔
وزیرستان جانے والے کوڈ پنک کے وفد میں شامل Alli McCracken نے کریم خان کے اغواء پر کہا کہ ’’ہم نرم خو اور گرم جوش کریم خان کیلئے انتہائی فکرمند ہیں،جس نے ہمارے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ہم نے اس کی رہائی کیلئے پاکستانی سفارت خانے اور محکمہ داخلہ کو فون کالز کی بھرمار کی شکل میں ایک پرزور مہم شروع کی ہے‘‘۔ لگتا ہے کہ یہ مہم اور عدلیہ کی دوٹوک ہدایت رنگ لائی اور کریم خان کو 14 فروری کی شام ، ان کے وکیل کے مطابق ٹارچر اور تفتیش کے بعد اسلام آباد کے قریب پھینک دیا گیا تاہم
اس طرح یورپی پارلیمنٹ کے ارکان سے ان کی بات چیت کے پروگرام کو ضرور خراب کردیا گیا اور شاید کریم خان کے اغواء کا اصل مقصد یہی رہا ہو جو حاصل کرلیا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ کو جنرل مشرف کے دور میں اغواء کیا گیا۔ جنرل مشرف پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں بیچنے کا فخریہ تحریری اعتراف کرچکے ہیں لہٰذا ان کے ہاتھوں ایسا ہونا کسی حیرت کا باعث نہیں لیکن موجودہ دور حکومت میں کریم خان کا اغواء یقیناً باعث حیرت ہے کیونکہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے ذریعے حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو حراست میں لئے جانے والے شخص کی تفصیلات سے اس کے لواحقین کو آگاہ کرنے اور اہلکاروں کو اپنی شناخت بتانے کا پابند کیا ہے۔ پھر یہ کہ کریم خان کوئی دہشت گرد نہیں، وہ پاکستان کی خودمختاری کے لئے قانونی جنگ لڑنے والا سپاہی ہے۔ ڈرون حملوں کی تباہ کاریوں کی تفصیلات سے یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو آگاہ کرنے سے کریم خان کو روکنے کے لئے اسے اغواء کرکے قوم کو آخر کیا پیغام دیا گیا ہے؟ اگر پاکستان ایک خودمختار ملک ہے تو وزیر اعظم کو اب ذاتی دلچسپی لے کر کریم خان کو یورپی یونین کے ارکان سے بات چیت کے لئے باہر جانے کی تمام ضروری سہولتیں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرانی چاہئیں کیونکہ عالمی برادری کے سامنے ڈرون کے خلاف حکومت پاکستان کے مقدمے میں کریم خان بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے بھی نتیجہ خیز اقدامات کرنے چاہئیں جس کا وعدہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے بار بار کیا تھا ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ پر دہشت گردی کے حوالے سے کوئی الزام خود امریکی عدالت میں بھی عائد نہیں کیا جاسکا۔ انہیں جس الزام میں چھیاسی سال کی سزا سنائی گئی ہے وہ امریکی فوجی پر اُسی کی ایم فور رائفل سے فائرکرناہے جبکہ خود وائس آف امریکہ کی یکم جنوری2010ء کی رپورٹ کے مطابق رائفل چلنے کا کوئی ثبوت استغاثے کی جانب سے پیش نہیں کیا جاسکا تھا۔
تازہ ترین