• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے زیادہ تر کالم ملکی اور بین الاقوامی معاشی امور پر ہوتے ہیں لیکن قوم کی ہر دلعزیز شخصیت عبدالستار ایدھی کی وفات پر آج میں اپنا کالم اُن کی ہمہ گیر شخصیت اور انسانیت کیلئے اُن کی خدمات پر لکھنا چاہتا ہوں۔ قیام پاکستان سے اب تک بہت سے صدور، وزرائے اعظم، مسلح افواج کے جرنیل، آرٹسٹ، صنعتکار دیار فانی سے کوچ کرگئے لیکن آج لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔ ایدھی نے پاکستان میں نجی سماجی کاموں اور خدمت انسانی کی بنیاد رکھی۔ وہ تعلیم تو زیادہ حاصل نہیں کرسکے لیکن سچائی، مخلصی اور سادگی اپناکر زندگی کے عملی تجربات نے انہیں دنیا میں لازوال بنادیا۔
میرے نزدیک عبدالستار ایدھی ایک ذہین (Genius) فلاسفر تھے جنہوں نے زبان، رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر پوری انسانیت کی خدمت کی اور 2000 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل ایمبولینس سروس جس میں ایئر ایمبولینس بھی شامل تھی، نے 1997ء میں دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن کر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ میں عبدالستار ایدھی کی دور اندیشی اور بصیرت کا دل سے معترف ہوں جنہوں نے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے وژن سے ان تمام شعبوں میں سماجی خدمات انجام دیں جس کی معاشرے کو اشد ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر یتیم خانے، معذوروں اورلاوارث افراد کیلئے رہائش گاہیں، پاگل خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، لاشوں کیلئے سرد خانے، بے سہارا عورتوں کیلئے پناہ گاہیں، زچگی گھر وغیرہ وہ خدمات ہیں جس کے بارے میں ایدھی سے پہلے نجی شعبے میں کسی اور نے کبھی نہیں سوچا تھا لیکن عبدالستار ایدھی نے محدود وسائل کے باوجود نہایت ایمانداری اور دن رات انسانیت کی خدمت کرکے پوری دنیا کا اعتماد حاصل کیا اور پھر پاکستان اور ملک سے باہر سے اربوں کے عطیات ایدھی فائونڈیشن کو بھیجے جانے لگے۔ چند سال قبل ایدھی صاحب نے مجھے بحیثیت سفارتکار و صنعتکار عبداللہ شاہ غازی مزار کے عقب میں قائم ایدھی ہوم میں افطار پر مدعو کیا تھا۔ ایدھی صاحب سے ہونے والی گفتگو کے دوران میں نے اندازہ لگایاکہ انہیں پاکستان میں چندہ، فطرہ اور عطیات وصول کرنے سے روکنے کیلئے دھمکیاں دی جارہی ہیں جس پر وہ فکرمند اور افسردہ تھے اور اس کا ذکر انہوں نے بی بی سی میں دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بھی کیا تھا۔
آج کا کالم اعداد و شمار کا نہیں لیکن پھر بھی میں بتاتا چلوں کہ ایدھی فائونڈیشن 20 ہزار سے زائد لاوارث افراد، 50 ہزار سے زائد یتیموں، 375 فلاحی سینٹرز، ہزاروں نرسوں اور2 ہزار سے زائد ایمبولینس کا سماجی نیٹ ورک کامیابی سے چلارہی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنے بعد مشن کو جاری رکھنے کیلئے بیٹے اور بیوی کو تیار کیا اور ہزاروں تربیت یافتہ کارکنوں کی ٹیم پیچھے چھوڑی ہے۔ ان کی وفات اور تدفین کے دن بھی ایدھی فائونڈیشن کے کنٹرول روم اور 375 فلاحی سینٹرز میں ایک لمحے کیلئے بھی کام نہیں رکا جو ان کی پروفیشنل تربیت و مہارت کا ثبوت ہے۔ عبدالستار ایدھی، قائداعظم محمد علی جناح اور مدر ٹریسا کی شخصیت سے متاثر تھے۔ انہوں نے 20 سال کی عمر میں اپنے والد کے کپڑے کے کاروبار سے ملنے والے کمیشن سے اپنی برادری کے ضرورت مندوں کیلئے ڈسپنسری اور سڑک پر چندہ اکٹھا کرکے 20 ہزار روپے میں خریدی گئی پرانی گاڑی جسے وہ خود چلاتے تھے، کو ایمبولینس کی شکل دے کرسماجی خدمات شروع کیں لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی ان خدمات کو اپنی برادری تک محدود رکھنے کے بجائے سب کیلئے عام کرنے کا فیصلہ کیا اور آج ایدھی فائونڈیشن پاکستان سمیت دنیا کے 13 ممالک میں انسانی خدمات انجام دے رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے عبدالستار ایدھی پر تنقید بھی کی کہ وہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کی سماجی خدمات کیوں کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ اللہ رب العالمین ہے، رب المسلمین نہیں۔ اسی طرح عبدالستار ایدھی نے لاوارث بچوں کیلئے ایدھی سینٹرز میں جھولے رکھوائے تو ان پر تنقید کی گئی کہ اس طرح وہ ناجائز بچوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی اور ان لاوارث بچوں کی پرورش ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی نے سنبھال لی جن کا کہنا تھا کہ یہ لاوارث بچے کچرا کنڈی سے زخمی یا مردہ حالت میں ملتے تھے اور جانوروں کی غذا بن جاتے تھے لیکن جھولے رکھنے سے یہ لاوارث بچے ایدھی کے محفوظ ہاتھوں میں آگئے ہیں جو تعلیم و تربیت حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔عبدالستار ایدھی کو جانوروں سے بھی بے انتہا محبت تھی۔ دو سال قبل تھر میں جب قحط سالی کی وجہ سے مور مرنے لگے تو وہ ناسازی طبیعت کے باوجود ڈاکٹروں کی ٹیم لے کر ننگر پارکر پہنچ گئے تھے۔
ایدھی کی وفات والے دن شام کو میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر زبیر احمد کے ہاں چائے پر مدعو تھا جہاں بریگیڈیئر زبیر نے مجھے بتایا کہ حال ہی میں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی زیر صدارت ہونے والے ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں ایدھی صاحب کی فیملی کی رضامندی کے بعد سی ویو کے پانچ کلومیٹر طویل بیچ ایونیو کا نام تبدیل کرکے ’’عبدالستار ایدھی ایونیو‘‘ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔اس موقع پر میں نے بریگیڈیئر زبیر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ڈی ایچ اے کا ایدھی صاحب کی زندگی میں ایونیو ان کے نام کرنا ایدھی کی فیملی کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ تقریب میں شرکت کے بعد جب میں رات 9 بجے گھر پہنچا تو ٹیلی وژن پر ایدھی صاحب کی وفات کی اندوہناک خبر سننے کو ملی۔ اگلے روز میں نے عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی اور میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انسانیت کے بہت بڑے خدمتگارعبدالستارایدھی کو جس سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا، وہ ملک کے بڑے بڑے سربراہان مملکت کو نصیب نہیں ہوا۔ نماز جنازہ میں میرے ساتھ پہلی صف میں عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی، صدر مملکت ممنون حسین، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، نیول چیف ایڈمرل ذکا اللہ، ایئر چیف مارشل سہیل امان، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر، جی او سی ملیر میجر جنرل شہزاد اور وفاقی وزراء بھی موجود تھے۔ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر نیشنل اسٹیڈیم کے دروازے نماز جنازہ سے دو گھنٹے پہلے ہی بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث عوام کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رہی۔ اس بارے میں جی او سی ملیر میجر جنرل شہزاد نے فون کرکے بتایا کہ مختصر وقت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی سیکورٹی فراہم کرنا فوج اور انتظامیہ کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا، اس لئے سول و فوجی قیادت کی آمد سے قبل ہی اسٹیڈیم کوبند کرنا پڑا۔
ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ٹی وی کے کئی چینلز پر مجھے جانے کا اتفاق ہوا اور دوران پروگرام پورے ملک اور بیرون ملک سے آنے والی ٹیلیفون کالز سے یہ پتہ چلا کہ لوگ ایدھی صاحب کو کتنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا یہی سوال تھا کہ کیا ایدھی فائونڈیشن، عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد اُسی مہارت، مخلصی اور ایمانداری کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھے گی جس طرح وہ ایدھی صاحب کی زندگی میں اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے تھی؟ میرے نزدیک انتظامی امور کے ماہر عبدالستار ایدھی نے ایدھی فائونڈیشن کو ایک سسٹم فراہم کردیا ہے جس کے ذریعے سماجی خدمات انشاء اللہ مستقبل میں بھی اسی طرح جاری رہیں گی۔ اُمید ہے کہ عبدالستار ایدھی کی اہلیہ اور ان کے بیٹے ایدھی کے مشن کو اُسی جذبے کے ساتھ جاری رکھیں گے جو ایدھی صاحب کا خاصا تھا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہاکی اسٹیڈیم آف پاکستان کراچی کا نام عبدالستار ایدھی سے منسوب کردیا گیا ہے جبکہ سندھ اور خیبرپختونخواکے وزرائے اعلیٰ نے نیا اسلام آباد ایئرپورٹ بھی ایدھی کے نام سے منسوب کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسی طرح FPCCI کا سالانہ اچیومنٹ ایوارڈ ایدھی کے نام سے منسوب کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو ایسی ہی عزت و مرتبہ دیتی ہیں۔ عبدالستار ایدھی وفات پاگئے لیکن ایدھی ہمیشہ اُسی طرح زندہ رہے گا جس طرح محمد علی جناح کی وفات کے بعد قائداعظم آج بھی زندہ ہیں۔
تازہ ترین