• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ٹی 20ورلڈ کپ میں جو کارکردگی دکھائی ہے، اس پر قوم کے لوگ جذباتی ہوئے اور دکھی ہیں۔ ہر جگہ تبصرے ہورہے ہیں، تجویزیں دی جارہی ہیں۔ کپتان بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ کھلاڑی بدلنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہر طرح کے مشورے دیئے جارہے ہیں لیکن کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ پاکستان کی ٹیم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟پاکستان میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کمی نہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی ایسی کہ جس پر سب رشک کرتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑی ریکارڈ ساز کارکردگی ادا کرتے ہیں۔ وہ کرکٹ کی ریکارڈ بکس میں اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتے ہیں۔ کرکٹ کی اسپکنگ بھی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ لیکن پھر یکایک وہ ایسے کیوں ہوجاتے ہیں کہ ان کی پرفارمنس نچلی سطحوں کو چھونے لگتی ہے۔ہم نے کرکٹ ٹیم کی اس مایوس کن کارکردگی کا پتہ لگایا ہے کہ اس کے ساتھ ہی ہم نے کچھ تجاویز بھی مرتب کی ہیں۔ ہمارے کچھ دوست ہمارے تجزیے کو ایک مزاحیہ کالم کا لطیفہ سمجھیں گے اور ہمارے مشوروں کو فکاہیہ کالم کے رنگ کہیں گے۔ مجھے ان دوستوں اور قارئین سے کوئی گلہ نہ ہوگا۔ بہرحال میں ہنسی ہنسی میں کام کی باتیں کرتا رہوں گا۔
اگر آپ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ریکارڈ بگ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا جب ہمارا کوئی کھلاڑی کسی میچ میں اچھی پرفارمنس دے دیتا ہے تو اگلے کئی میچوں میں اس کی کارکردگی تقریباً زیرو ہوجاتی ہے۔ اگر کسی بیٹسمین نے سنچری بنائی یا بڑا اسکور کرلیا یا وہ مین آف دی میچ ہوگیا تو اگلے کئی میچوں میں وہ سنگل فگر یا زیرو پر ہی آئوٹ ہوجائے گا۔ کسی بولر نے کسی میچ میں 3یا 4وکٹیں لے لیں تو اگلے میچوں میں وہ اچھی طرح مار کھاتا رہے گا۔اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مزاجوں کے مطابق بہت جلدی چوڑے ہوجاتے ہیں۔ سنچری کرلی یا بڑا اسکور کرلیا، اب جو واہ واہ ہوئی اس سے بیٹسمین پھول گیا، خوب چوڑا ہوگیا۔ اب فیلڈنگ میں وہ کیچ بھی چھوڑ رہا ہے۔ گیند اس کے ہاتھوں میں نہیں آرہی خوب رنز بنوارہا ہے۔ اس طرح جس بولر نے 3یا 4وکٹیں لے لیں۔ اگلے کئی میچوں میں وہ اسی خمار کے ساتھ آیا اور اس کی خوب دھنائی ہوئی۔ ایک بولر نے میچ کے پہلے ہی اوور میں وکٹ لے لی۔ خوب واہ واہ ہوئی اگلے میچ میں اس نے ایک اوور ہی میں 30رنز دے دیئے۔ویسٹ انڈیز کے ساتھ میچ میں سعید اجمل نے 2 اوورز میں 6 رنز دیئے تھے۔ پھر تیسرے اوور میں وہ جس انداز سے بال ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوئے۔ چیونگ گم چباتے ہوئے وہ ویسٹ انڈین بولر کو جس نگاہ سے دیکھ رہے تھے وہ قابل دید تھی۔ پھر کیا ہوا۔ ایک اوور ہی میں 24رنز دے دیئے۔ ایسا ہی عمر گل نے کیا اور ویسٹ انڈیز جس نے 15اوورز میں 84 رنز بنائے تھے باقی 5اوورز میں 82رنز بنانے میں کامیاب ہوئی۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے بہت جلد چوڑا ہوجانے نے ایسے کئی ٹریجڈی ڈرامے ہمیں دکھائے ہیں۔مختصر سا کالم بہت زیادہ مثالوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے آپ ان چند مثالوں میں کافی سمجھئے اور اب ہماری ان تجاویز کو پڑھئے جن پر عمل کرکے پاکستان کی ٹیم اپنی اس کمزوری پر قابو پاکستی ہے۔تجویز نمبر ایک:جو کھلاڑی کسی میچ میں نصف سنچری کرے اس کو اگلے ایک میچ سے ڈراپ کردیا جائے اور جو کھلاڑی سنچری اسکور کرے اس کو اگلے دو یا تین میچ میں نہ کھلایا جائے۔ آپ اگر ریکارڈ بک دیکھیں گے تو ایسے کھلاڑی اگلے میچوں میں مکمل ناکام ہوتے ہیں تو کیوں نہ ان کو باہر بٹھا کر دوسرے کھلاڑی کو کھلایا جائے۔ بعض بیٹسمین ایسے بھی ہیں جو ایک میچ میں شاندار کارکردگی دکھا کر اگلے 6سے 8میچوں تک مکمل ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہیرو کو اس کی ایک کارکردگی کے بعد کم از کم 6میچوں کے لئے آرام دیا جائے۔ جو بولر کسی میچ میں 3یا 4وکٹیں لے لے اس کو بھی آئندہ دو یا تین میچ میں آرام دیا جائے۔ آپ کہیں گے پھر ٹیم میں کتنے کھلاڑی ہوں۔ ہم کہیں گے ٹیم میں 40کھلاڑی رکھ لیں۔ کیونکہ ایک زمانے میں کرکٹ کا صرف ایک منیجر ہوتا تھا۔ بعد میں ایک کوچ بھی ہوگیا۔ اب تو کئی کئی کوچ ٹیم میں شامل ہیں تو کھلاڑی کیوں زیادہ نہ کئے جائیں۔ آج بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کے الگ الگ کوچ ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بھی کم ہیں۔ لیفٹ ہینڈ بیٹسمین کے لئے الگ کوچ ہونا چاہئے رائٹ ہینڈ کے لئے الگ ۔ اوپننگ بیٹسمین کے لئے بھی کوچ الگ ہونا چاہئے۔ مڈل آرڈر بیٹنگ کے لئے الگ۔ وکٹ کیپنگ کا کوچ بھی الگ ہونا چاہئے۔ اسی طرح بولنگ کے کوچ بھی 6سے 8 تک ہونے چاہئیں۔ کسی ٹورنامنٹ میں ہر ٹیم کے مقابلے کے لئے کھلاڑی تیار کرنے کی حکمت عملی بنانے کے لئے بھی الگ الگ کوچ ہونے چاہئیں۔ مثلاً ویسٹ انڈیز کے مقابلے کے لئے ظہیر عباس صاحب کو بیٹنگ کوچ نہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ اپنے آخری دنوں میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں کولن کرانٹ اور سلولیسٹر کلارک جیسے بولر ہوتے تھے تو وہ اسی طرح آئوٹ ہوجاتے تھے۔ جیسے احمد شہزاد اور عمر اکمل آئوٹ ہوئے۔اب ایک اور مسئلہ فیلڈنگ کا ہے۔ کمزور فیلڈنگ ہماری ٹیم کی روایت رہی ہے۔ ٹیم میں کبھی کبھی بہت اچھے فیلڈر بھی رہے ہیں لیکن عام طور پر ہم کیچ چھوڑنے اور گیند کو نہ پکڑے سکنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ غور کیا جائے تو شاید یہ کمزوری بھی ہمارا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جب کیچ کرنے کا معاملہ آجائے تو ہمارے دل میں ترس آجاتا ہے۔ اور جب کوئی بھاگ رہا ہو تو ہم اس پر پوری طرح ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جب اونچا کیچ آتا ہے تو ہمارے دلوں میں ترس آجاتا ہے۔ ہائے بیچارا آئوٹ ہوجائے گا۔ تو یہ جذبہ ہمارے ہاتھ ڈھیلے کردیتا ہے اور کیچ گر جاتا ہے۔
تازہ ترین