• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’موت سب کو مارتی ہے لیکن شہید موت کو مار دیتا ہے۔یہ تھا وہ پیغام جو پاکستان آرمی کے میجر جنرل بلال عمر کی بیوہ یوم شہدا پاکستان کے موقع پر دے رہی تھیں۔ وہ بڑے پروقار انداز میں اعتماد سے بھرپور لہجے کے ساتھ کہہ رہی تھیں کہ دفاع وطن کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے شہدا کی جرأت و قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے ورثا کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوں اور اپنے دلوں میں ہمیشہ شہداء کی یادوں کا دیا جلائے رکھیں‘‘۔حامد میر نے 30 اپریل 2011ء کو جی ایچ کیو راولپنڈی یادگار شہداء پر منعقد ہونے والی تقریب سے متعلق 2 مئی 2011ء کو اپنے کالم کا آغاز ان جملوں سے کیا تھا۔جی ایچ کیو کا یہی مقام تھا جہاں 30 اپریل 2013ء کو یوم شہداء کی تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ میں حامد میر کی دائیں ہاتھ والی نشست پر ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ 2 مئی 2013 ء کو اس تقریب سے متعلق حامد میر نے اپنے کالم ’’شکریہ پاکستان آرمی‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ’’ آج مجھے ہر صورت ایک شکریہ ادا کرنا ہے۔میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگوں کو میرا شکریہ بہت برا لگے گا او وہ اپنی اوقات کے مطابق مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگائیں گے لیکن مجھے ہمیشہ کی طرح اپنی ذات پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی کوئی پروا نہیں۔ میرا کام یہ ہے کہ غلطی کوئی بھی کرے میں غلطی کی نشاندہی کروں اور اچھا کام کوئی بھی کرے میں اس کا اعتراف کروں۔آج مجھے پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔پاکستانی فوج کے سربراہ نے 30 اپریل کی شام سیاست پر گفتگو تو کی لیکن سیاست پر مداخلت کے بغیر پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ پہلی دفعہ صرف فوجی افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کو خراج تحسین نہیں پیش کیا گیا بلکہ ایف سی ،پولیس اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں سمیت عام پاکستانی شہریوں کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا گیا‘‘۔ مذکورہ کالم میں حامد میر نے لکھا تھا کہ’’ جب شہید نصراﷲ آفریدی کی قوت گویائی سے محروم بیٹی یوم شہداء کے شرکاء کو ہاتھوں کے اشاروں سے بتا رہی تھی کہ اس کے ابو جنت میں بڑے خوش ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شکیل ترابی بھی اپنے آنسو پونچھ رہے تھے ۔یہ وہی شکیل ترابی ہے جنہیں سچ لکھنے پر جنرل پرویز مشرف کے دور میں خفیہ ادارے زدوکوب کرتے اور ان کے بچوں کے اسکولوں میں گھس کر انہیں دھمکیاں دیتے رہے۔ آج شکیل ترابی کی جی ایچ کیو میں موجودگی فوج کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہماری لڑائی ادارے کے ساتھ نہیں بلکہ فرد کے ساتھ تھی۔ اس فرد کے ساتھ تھی جس نے آئین کو توڑ کر پاکستان کو بدنام کیا۔فوج بحیثیت ادارہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔فوج میں پہلی دفعہ صحافیوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا جس پر ہم فوج کے شکر گزار ہیں‘‘۔ درج بالا اقتباسات حامد میر کے صرف دو کالموں سے لئے گئے ہیں ،ان کے بے شمار کالموں سے یہی سوچ جھلکتی ہے کہ تمام محب وطن پاکستانیوں کی طرح ان کے سینے میں بھی اپنی سپاہ سے بے پناہ محبت ہے۔ حامد کی تحریریں اور ان کے پروگرام شاہد ہیں کہ انہوں نے قوم کے ماتھے کا جھومر پاک فوج کی قربانیوں کی تحسین میں کسی طرح کے بغض سے کام نہیں لیا۔اس کا قصور صرف یہ ہے کہ جہاں فوجی سپاہیوں کی قربانیوں پر انہیں سلیوٹ پیش کرتا ہے وہیں طالع آزما جرنیل جن کی سیاست میں مداخلت کے سبب پاک فوج بدنام ہوئی وہ انہیں بھی معاف نہیں کرتا۔اس کا سب سے ’’بڑاجرم‘‘ لاپتہ افراد سے متعلق اس کی تحریریں اور پروگرام ہیں۔ آئین توڑ کر سیاست میں مداخلت کے مرتکب آمروں نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ان کی ہوس اقتدار کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔سب سے زیادہ نقصان پرویز مشرف کے اقدامات سے پاکستان اور اس کی فوج کو پہنچا۔ قافلہ حسین کے سپاہی حامد میر نے عاقبت نااندیش جنرل مشرف کے آمرانہ اقدامات پر کبھی چپ نہ سادھی۔16 مارچ 2007 ء کو جیو اسلام آباد کے دفتر پر مشرف کے غنڈوں کے حملے کا اصل ہدف حامد میر ہی تھے۔ٹیوشن گئے ان کے بچوں کی گاڑی پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھیج دیا تھا۔ ان کی گاڑی کے نیچے بم باندھ کر اسے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے مجھ سے خصوصی دعا کی درخواست کے ساتھ ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کیا تھا۔ یہ دھمکیاں انہیں ’’کئی اطراف‘‘ سے موصول ہو رہی تھیں۔ہفتہ کے روز جن بزدلوں نے قاتلانہ حملے کے ذریعے انہیں اپنی راہ سے ہٹانے کی کوشش کی انہیں معلوم ہونا چاہئےکہ بے شک بچانے والا ’’حفیظ رب‘‘مارنے والوں سے کہیں زیادہ قوی ہے۔’’گمشدگی‘‘اتنا بڑا روگ ہے شاید عام آدمی اس کا صحیح صحیح انداز نہیں کر سکتا۔میں اس درد سے گزر رہا ہوں۔مجھے اغواء کیا گیا،مجھے اور میرے بیٹے کو زدوکوب کیا گیا۔بالآخر ’’شاطر دماغوں‘‘کی منصوبہ بندی کے سبب میرے نورِ نظر کو مجھ سے چھین لیا گیا۔تکلیف کے ان لمحات میں بڑے بڑے قرابت داروں نے چپ سادھ لی ۔حامد میرا صحافتی ساتھی تھا مشکل دور میں میرا سایہ بن کر میرے ساتھ رہا اور ساتھی سے دوست بن گیا۔حامد پر حملے کے بعد مجھے بے شمار ٹیلی فون کالیں اور پیغام موصول ہوئے جن میں لوگوں نے اس کی جرأت کی تعریف کے ساتھ جلد صحت یابی کی دعا کی۔سب سے زیادہ پیغامات لاپتہ افراد کے ورثا کے موصول ہوئے۔مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے بعض اداروں کی جانب سے انہیں سنگین دھمکیوں کا سامنا تھا،یہ دھمکیاں آفیسر سطح کی بھی ہو سکتی ہیں مگر قاتلانہ حملے کے بعد اس بات کا انکشاف کہ انہوں نے تحریری اور ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا تھا کہ ان کی جان کو کچھ ہوا تو ملک کی سب سے بڑی ایجنسی اور اس کے سربراہ اس کارروائی کے ذمہ دار ہوں گے۔ فوج کے ترجمان جنرل باجوہ نے اس بزدلانہ واقعے کی مذمت کے ساتھ حامد کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ بلا ثبوت اہم ادارے پر الزامات قابل افسوس ہیں۔ دھیمے مزاج کے جنرل باجوہ کی باتوں میں بہت وزن ہے۔ممکن ہے کہ پاکستان کا کوئی دشمن تاک لگائے بیٹھا ہو اور جب حامد کو دھمکیاں ملیں تو اس نے ’’اپنے منصوبے‘‘ پر عمل کرکے پاکستان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر دی ہوں۔ دشمن کی مکروہ منصوبہ بندی اپنی جگہ مگر حامد میر جیسے ذمہ دار فرد کی جانب سے اہم ذمہ داری پر تعینات فرد کی جانب اشارے میں بھی کوئی نہ کوئی راز تو یقیناً پوشیدہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انتہائی ذمہ دارانہ کمیشن مقرر کر کے حملے کے مرتکب افراد سے متعلق جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ اس ادارے کے سربراہ پر لگنے والے الزام کی بھی تحقیقات عمل میں لائی جائے۔ اسی میں پاکستان اس کے عوام اور تمام اداروں کی بھلائی ہے۔حملہ آور بزدلوں سے متعلق جالب نے کہا تھا۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو راستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو
تازہ ترین