اسلام آباد (نمائندہ جنگ) ایوان بالا کو بتایا گیا کہ پچھلے 30سالوں کے دوران سابق فوجی افسران، تاجروں، کاروباری افراد ، ملز مالکان اور سرکاری و پرائیویٹ کمپنیوں نے 4کھرب 30ارب 97کروڑ 53لاکھ روپے کے قرضے معاف کرائے جس میں مارک اپ کی رقم بھی شامل ہے۔ صوبوں کو 2013-14 میں 1415بلین، 2014-15 میں 1549بلین، 2015-16 میں 1873بلین جاری کئے۔ قومی اسمبلی نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بل متعارف کرایا نہ پاس کیا،موبائل فون صارفین سے 14فیصد چارجز وصول کئے جا رہے ہیں۔ اعظم سواتی اور نثار محمد خان کے سوالوں کے تحریری جواب میں وزارت خزانہ نے جمعہ کو ایوان بالا کو گذشتہ تیس سالوں کے دوران ایسے افراد اور کمپنیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا جس میں سیکڑوں کاروباری افراد ، کمپنیوں او ر ملز مالکان کے ذمہ پانچ کروڑ روپے یا اس سے اوپر کے قرضے معاف کئے گئے۔ اسحٰق ڈار کی ایوان میں عدم موجودگی پر وزارت خزانہ سے متعلقہ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ دو قوانین مالیاتی اداروں کو ناقابل ادا قرضوں کی تیز وصولی کیلئے بینکنگ عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کی اجازت دیتے ہیں جن مالیاتی اداروں (رقومات کی وصولی) آرڈیننس 2001 اور قومی احتساب آرڈیننس 1999جس کے تحت بنک قصداً نادہندہ کے خلاف قرض کی وصولی کیلئے فوجداری مقدمہ دائر کر سکتے ہیں،سب سے زیادہ اپرل پرائیویٹ لمیٹڈ کے 2015ء میں ایک کھرب 54ارب 84کروڑ 73لاکھ 42ہزار روپے، ریکسن انجینئرز کے 53ارب 66کروڑ 75لاکھ 93ہزار روپے جبکہ خیابان گھی ملز لمیٹڈ کے52ارب 24کروڑ 82لاکھ 75ہزار روپے کے قرضے معاف کئے گئے، مکران فشریز پرائیویٹ لمیٹڈ کے 96کروڑ روپے، کریسنٹ انڈسٹریل کیمیکل لمیٹڈ کا ایک ارب 26کروڑ 67لاکھ 47ہزار روپے کا قرضہ معاف کیا گیا، ویسٹ پاکستان ٹینک ٹرمینل پرائیویٹ لمیٹڈ کے 66کروڑ 34لاکھ 83ہزار روپے، دیوان سلمان فائبر لمیٹڈ کے 45کروڑ 66لاکھ روپے ، جاپان پاور جنریشن لمیٹڈ کے 2012ء میں 63کروڑ 55لاکھ 70ہزار روپے، سندل بار ٹیکسٹائل لمیٹڈ کے 42کروڑ 8لاکھ 87ہزار روپے، ریشی ٹیکسٹائل لمیٹڈ کے 85کروڑ 91لاکھ 68ہزار روپے ، سپننگ مشینری کمپنی آف پاکستان کے ایک ارب 38کروڑ 75لاکھ 95ہزار روپے، کریل کیسٹ لمیٹڈ کے 90کروڑ 9لاکھ بیس ہزار روپے، محب ٹیکسٹائل کے ایک ارب 11کروڑ 74لاکھ 89ہزار روپے، سراج سٹیل لمیٹڈ کے ایک ارب 41کروڑ 26لاکھ 62ہزار، سعودی سیمنٹ لمیٹڈ کے ایک ارب 26کروڑ 59لاکھ 69ہزار روپے، کوہ نور لومز لمیٹڈ کے 94کروڑ 54لاکھ روپے، پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل ملز کے ایک ارب 16کروڑ 15لاکھ 43ہزار روپے ،نان رہائشی عبداللہ ایس الراجی کے ایک ارب تین کروڑ 18لاکھ 99ہزار روپے، کراچی پراپرٹی انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے ایک ارب 31لاکھ 85ہزار روپے، مرکری گارمنٹس انڈسٹری کے ایک ارب 56کروڑ 58لاکھ 92ہزار روپے ، عزیز سپننگ ملز لمیٹڈ کے 86کروڑ 49لاکھ 51ہزار روپے ، مہر دستگیر سپننگ ملز لمیٹڈ کے ایک ارب 16کروڑ پانچ لاکھ 60ہزار روپے ، ریڈکو ٹیکسٹائل لمیٹڈ کے ایک ارب 11کروڑ 67لاکھ 74ہزار روپے ، یور و گلف انٹرپرائزز کے 5ارب 34کروڑ 25لاکھ 51ہزار روپے ، ناردن پولی تھین لمیٹڈ کے 82کروڑ 52لاکھ 89ہزار روپے ، کموڈور انڈسٹریز کے 72کروڑ 27لاکھ 59ہزار روپے ، ٹارگٹ ریڈی میڈ گارمنٹس فیکٹری کے 69کروڑ 64لاکھ 55ہزار ، نیپ جون گارمنٹس فیکٹری کے 59کروڑ 75لاکھ روپے ، ایم ایس سی ٹیکسٹائل پرائیویٹ لمیٹڈ کے ایک ارب 48کروڑ 51لاکھ 88ہزار روپے معاف کئے گئے ، راوی ایگری ڈیری پراڈکٹس کے 50کروڑ 97لاکھ 27ہزار ، پاک لینڈ سیمنٹ لمیٹڈ کے 43لاکھ 60ہزار ، سعدی سیمنٹ لمیٹڈ کے 58کروڑ 41لاکھ روپے معاف کئے گئے، ڈی ایچ اے کوگن لمیٹڈ نے2015ء میں 25کروڑ 24لاکھ 23ہزار روپے کے قرضے معاف کرائے ، فوجی سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے 2004ء میں 5کروڑ 17لاکھ روپے کے قرضے معاف کرائے، گندھارا نسان لمیٹڈ کے 7کروڑ 90لاکھ روپے کے قرضے معاف کئے گئے جسے لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان وغیرہ چلارہے ہیں، کوالٹی اسٹیل ورک لمیٹڈ کے 98 کروڑ دس لاکھ روپے کے قرضے معاف کئے گئے جسے میجر جنرل (ر) فرحت علی خان برکی وغیرہ چلا رہے ہیں ، بلوچستان گم انڈسٹری کے 65 ملین کے قرضے معاف کرائے گئے جسے بریگیڈئر (ر) خالق وغیرہ چلا رہے ہیں، قرضے معاف کرانے والے کاروباری افراد ، ملز اور کمپنیوں نے سرکاری اور پرائیویٹ بنکوں سے قرضے حاصل کئے تھے۔ محسن لغاری کے سوال کے جواب میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ قومی اسمبلی نے نہ ہی کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بل متعارف کرایا اور نہ ہی پاس کیا تاہم حکومت کی طرف سے ایک رضا کارانہ ٹیکس پر ایمنسٹی اسکیم (وی ٹی سی ایس) کا اعلان کیا گیا ہے اور اسے بل کی شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ ابھی تک 9020 افراد نے وی ٹی سی ایس اسکیم کے تحت اپنی بغیر واجب الادا رقوم جمع کرا کر اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے اور 850 ملین روپے کا ٹیکس اس اسکیم کے تحت جمع کیا گیا۔ اس اسکیم کی اشتہار سازی پر 61ملین روپے خرچ کئے گئے۔ چو ہد ر ی تنویر خان کے ضمنی سوال کے جواب میں زاہد حامد نے بتایا کہ یہ ایمنسٹی اسکیم نہیں تھی بلکہ رضا کارانہ اسکیم تھی۔ اس کا مقصد تاجر برادری کو فائلر بنانا تھا اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کی گئی ٹیکس فائلر بہت محدود ہیں۔ فائلر کی تعداد میں اضافہ کرنے کیلئے مزید اس حوالے سے اسکیم کا اجرا کیا جائیگا۔ محسن لغاری کے سوال کے جواب میں زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین میں شفافیت لانے کی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے فنانس ایکٹ 2015کی وساطت ایف بی آر کے استثنیٰ جاری کرنے کے اختیارات ختم کئے جائیں۔ حکومت نے مختلف ایس آر اوز کے تحت موجودہ رعایتی رجیم پرنظرثانی بھی کی ہے ساری رعایتی رجیم کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے نظرثانی کی ہے جس نےرعایتی ایس آر اوز کی تین سالوں کے عرصے میں تین مرحلوں میں ختم کی سفارش کی ہے تین مرحلوں میں سے 2مکمل ہو چکے ہیں۔ میاں عتیق شیخ کے سوال کے جواب میں زاہد حامد نے بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے دفعہ 170 (30)(ب)میں انٹر ٹیکس ریفنڈ وضع ہے۔ سینیٹر حمد اللہ کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2013،14میں 1415.92بلین روپے، 2014،15میں 1549.566بلین روپے جبکہ 2015،16مالی سال کے دوران 1873.966بلین روپے جاری کئے گئے۔ کلثوم پرویز کے سوال کے جوا ب میں وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ وزیراعظم نے یوٹیلیٹی اسٹور پردالوں اور گھی سمیت بعض آیٹمز میں سبسڈی جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، کلثوم پروین کے ایک اور سوال کے جواب میں زاہد حامد نے بتایا کہ ملک بھر میں موبائل فون صارفین سے 14فیصد چارجز وصول کئے جا رہے ہیں اگر سروسز اسلام آباد میں استعمال کی جا رہی ہو تو صارفین سے 18اعشاریہ 5فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی وصول کی جاتی ہے ، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 19اعشاریہ 5فیصد صوبائی سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ سندھ میں انیس فیصد کے حساب سے صوبائی سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، ٹیلی کام کمپنیوں کی طرف سے الٹرنیٹ کارپوریٹ ٹیکس کی مد میں 2015ء میں انکم ٹیکس 5994 ملین روپے ، ودہولڈنگ ٹیکس 43314ملین روپے جبکہ سیلز اینڈ ایف ای ڈی 1268ملین روپے ادا کیا گیا۔سینیٹر محسن خان کے سوال کے جواب میں وزیر قانون و انصاف نے ایوان کو بتایا کہ خالص ملکی اثاثہ جات پر بالائی حد اور خالص بین الاقوامی ذخائر زیریں حد کے اہداف پر آئی ایم ایف سے اتفاق ہو گیا ہے ، دسمبر 2015کے اختتام پر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اصل بین الاقوامی ذخائر کی زیر حد اصل 6882ملین ڈالر جبکہ ایس پی پی کے خالص ملکی اثاثہ جات پر بالائی 2633بلین روپے ہے۔