• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ تین روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزرے ۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سمیت کئی دیگر حکومتی ذمہ داران، ممبران پارلیمنٹ اور دانشوروں سے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ کابل میں پاکستانی سفیرسید ابرار حسین اوران کی ٹیم کے ساتھ بھی تفصیلی نشستیں ہوئیں۔ کئی سال کے وقفے کے بعد بذریعہ سڑک کابل تا اسلام آبادسفرکیا اور طورخم بارڈر پر نئے انتظامات اور دونوں جانب کے لوگوں کے تاثرات سے بھی آگاہی ہوئی ۔ اس سفر کے مشاہدات اورافغانستان کے مقدمے (جو میں سمجھا ہوں) کو اس نیت سے اختصار کے ساتھ سپرد قلم کررہا ہوںکہ پاکستانی پالیسی سازوں کو افغان ذہن سمجھنے میں آسانی ہو۔ کئی حوالوں سے مجھے بھی افغانستان کے طرف کے نقطہ نظر اور اپروچ سے اختلاف ہے اورالحمدللہ ہر نشست میں ہر طرح کی شخصیات کے سامنے اس کا اظہار اور پاکستانی مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی اور مطلب ہر گز یہ نہیں کہ افغان سائیڈ کی سوچ کو میں درست سمجھتا ہوں لیکن محض تفہیم کی خاطر وہاں کی فضا اور افغان مقدمے کو نقل کررہا ہوں ۔
افغانستان میںپاکستان کے بارے میں جس قدرناراضی کی فضا اب کی بار میں نے کابل میں دیکھی ، پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ناراضی کے پیمانے اور انداز مختلف ہیں ۔ کوئی انتقامی انداز میں سوچ رہا ہے ، کسی کا لہجہ خالص دشمنوںوالا ہے ، کوئی بے وفائی کا طعنہ دے رہا ہے ، کسی کا انداز شکوے والا ہے اور کسی کا برادرانہ نصیحت والا ، لیکن ایسا فرد بڑی مشکل سے ملتا ہے کہ جو سو فی صد پاکستان کا حامی ہو اس کے کردار کی تاویل کررہا ہو۔ ماضی میں صرف انڈیا، امریکہ یا ایران وغیرہ کے زیراثر افغان رہنما اور میڈیا پرسنز یہ الزام لگاتے رہے کہ پاکستان ان سے لڑنے والے طالبان کو سپورٹ کررہا ہے لیکن ملاعمر کی پراسرار موت اور ملااختر منصور کےپاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں قتل کے بعد اب ہر افغان اس سازشی تھیوری پر یقین کرنے لگا ہے کہ طالبان کی جنگ اور مزاحمت پاکستانی مدد کی مرہون منت ہے ۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور افغان عوام کی واضح اکثریت یہ رائے اپنا چکی ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ہندوستان جیسی قوتوں کی ناراضی کا رسک لے کر بڑے خلوص کے ساتھ پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن پاکستان نے بے وفائی کی ۔ افغان عوام کی یہ رائے کیوں بنی ہے اور وہ مبنی برحقیقت ہے یا نہیں ، سردست میں اس سوال کا جواب نہیں دے رہا لیکن بہر حال جو مجموعی فضا بنی ہے ، وہ کم وبیش ایسی ہی ہے اور جو چند ایک لوگ پاکستان کے حامی تھے یا پھر سمجھے جاتے ہیں، وہ نہایت مدافعانہ پوزیشن میں آگئے ہیں ۔
افغان صدر اور ان کی ٹیم کا مقدمہ یہ ہے کہ انہوںنے ہندوستان اور ایران جیسے دوستوں اور پڑوسیوں کو پاکستان کی خاطر ناراض کیا۔ حتیٰ کہ اپنے فوجیوں کو تر بیت کے لئے پاکستان بھجوانے پر بھی اتفاق کیا۔ ٹی ٹی پی کے خلاف امریکی کارروائیوں کو بھی چونکہ وہ اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے لطیف اللہ محسود اور آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کے بعض ملزموں کو پاکستان کے حوالے کیا۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں خلیفہ عمر منصور عرف نرے کی ڈرون میں ہلاکت کو بھی وہ اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں ۔ افغان صدر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملافضل اللہ کو مارنے کے لئے ان کی حکومت نے گیارہ مرتبہ بمباری کی ۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اعتماد دلانے کے لئے اس کے مطالبے پر چار فریقی کونسل میں چین کو بھی شامل کیا گیا ۔ جب اشرف غنی اور ان کے ساتھی یہ سب کچھ کررہے تھے تو ملک کے اندر ان پر شدید تنقید ہورہی تھی ۔ حزب اختلاف کے سیاسی رہنما اور میڈیا میں ان کو پاکستانی ایجنٹ اور غلام کا طعنہ دیا جارہا تھا۔ حامد کرزئی جیسے لوگ بھی نعرہ زن تھے کہ پاکستان پر اعتماد نہ کیا جائے لیکن انہوںنے کئی ممالک کی ناراضی اورملک کے اندر غیرمقبول ہونے کا رسک لے کر پاکستان کے ساتھ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا۔ تاہم جواب میں (واضح رہے کہ یہ افغان حکومت کا دعویٰ ہے جس سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں)ملا عمر کی موت کے معاملے کو ان سے چھپائے رکھا۔ مفاہمت کے لئے طالبان کو آمادہ کرنے پر اتنا دبائو نہیں ڈالا جتنا کہ وزیراعظم پاکستان نے وعدہ کیا تھا۔ ان کے بقول الٹا پاکستان یہ توقع لگائے بیٹھا تھا کہ افغان حکومت اس سال انتشار کا شکار ہوکر گر جائے گی اور طالبان کئی صوبوں پر قابض ہوجائیں گے ۔ اسی لئے ان کے دعوے کے مطابق پاکستان ایک طرف ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور دوسری طرف طالبان کو کارروائیاں بڑھانے کے لئے شہہ دی ۔
ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے ساتھی جہاں پاکستان سے شدید ناراض ہیں ، وہاں پہلی مرتبہ وہ ایک روایتی افغان خوداعتمادی اور قومی زعم کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔ وارسا میں نیٹو (NATO)کی طرف سے افغان حکومت کو سپورٹ کرنے اور اپنے مشن کی مدت کو بڑھانے کے بعد افغان حکومت کا مورال بلند ہوگیا ہے جبکہ ملک کے اندر اس کے مخالفین کا نیچے گر گیا ہے ۔ امریکہ نے اپنے قول اور عمل سے انہیں یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ نہ افغانستان کو تنہا چھوڑے گا اور نہ ڈاکٹراشرف غنی کی حکومت کو گرنے دے گا ۔ اسی طرح افغان حکام کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ ملا اختر منصور کے بعد ملاہیبت اللہ اخوند طالبان کو زیادہ دیر منظم نہیں رکھ سکیں گے ۔ امریکیوں نے چونکہ ڈرون کا استعمال بڑھا دیا ہے ، اس لئے طالبان کی کارروائیاں کسی حد تک کم ہوگئی ہیں اور ان کے تجزیے کے مطابق یہ خطرہ ٹل گیا ہے کہ طالبان کابل یا افغانستان کے کسی صوبے یا حصے پر قابض ہوجائیں ۔ اسی طرح افغان حکومت کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ کابل اور دیگر شہروں میں عوامی مقامات پر دھماکوں اور افغانستان میں قوم پرستانہ جذبات کے ا بھار کی وجہ سے رائے عامہ طالبان کے خلاف ہورہی ہے ۔ اسی طرح چابہار کے راستے ایران اور ہندوستان کے ساتھ نئے تجارتی روٹ کو بھی افغان حکام ایک حد تک اپنے لئے پاکستانی روٹ کا متبادل سمجھ رہے ہیں ۔ افغان حکام کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ صرف امریکہ نہیں بلکہ چین بھی اندر سے چار فریقی کمیشن کے مفاہمتی عمل کی ناکامی کا ملزم پاکستان کو گردانتا ہے اوراس کی طرف سے افغان حکومت کو پہلی مرتبہ فوجی امداد کی فراہمی کو وہ اس بات کا ثبوت قرار دے رہے ہیں کہ چین ان کی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے سنجیدہ ہے ۔ اس تجزیے کی وجہ سے افغان حکام کے پاکستان سے متعلق رویے میں جارحیت کا عنصر غالب ہوگیا ہے ۔
مذکورہ عوامل اور جذباتی فضا اپنی جگہ لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ افغان حکومت نے پاکستان کے ساتھ مفاہمت اور بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے ۔ وہ اب بھی کسی بھی ملک کے مقابلے میں پاکستانی کردار کو سب سے زیادہ اہم سمجھتی ہے لیکن وعدوں کی بجائے اب عمل کا مطالبہ کررہی ہے ۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان ہر طرح کا دبائو ڈال کر طالبان کو مفاہمت کے لئے آمادہ کرے اور جو بات نہ مانے ، ان کو مارنے یا گرفتار کرنے میں افغان حکومت کی مدد کرے ۔ جواب میں وہ پاکستان کے خدشات کو رفع کرنے کو نہ صرف تیار ہے بلکہ دونوں جانب کے عملی اقدامات اور مجبوریوں کی نگرانی کی خاطر چین یا امریکہ کو ثالث بنانے پر بھی آمادہ ہے ۔ یہ پیش کش ڈاکٹر اشرف غنی نے میرے ساتھ انٹرویو میں بھی واشگاف الفاظ میں کی ہے جو آج (ہفتہ) رات دس بج کر پانچ منٹ پر جیو نیوز سے ٹیلی کاسٹ ہوگا۔ افغانستان کے اس مقدمے کے جواب میں پاکستان کے مقدمے کو میں اگلے کالم میں نقل کرنے کی کوشش کروں گا ۔
سردست اتنا عرض کروں کہ افغانستان کے مقدمے کے بعض اجزاء غلط فہمیوں پر مبنی ہیں ، بعض تصورات میں مبالغے کا عنصر زیادہ ہے لیکن بعض جائز اور مبنی برحقیقت بھی ہیں۔ میرے خیال میں اگر وزیراعظم نوازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف براہ راست ڈاکٹراشرف غنی کے ساتھ کھلے دل سے مکالمے کا ا ہتمام کریں ۔ دونوں جانب روایتی سفارتی حربوں کے استعمال کی بجائے کھلے دل کے ساتھ اپنے اپنے حصے کی غلطیوں کو تسلیم کرلیں اور حقائق کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ، ان کا احساس کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو حل ابھی بھی نکل سکتا ہے ۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ میرے ساتھ انٹرویو کے ذریعے ڈاکٹراشرف غنی نے وزیراعظم نوازشریف کو دورہ کابل کی دعوت دی اوراگر وہ فوری طور پر اسے قبول کرکے کابل کا دورہ کرلیںتو حالات میں بہتری آسکتی ہے۔ وزیراعظم کی صحت کا معاملہ اپنی جگہ پر لیکن کابل کی فلائٹ کا دورانیہ اتنا ہی ہے جتنا کہ اسلام آباداور لاہور کا ہے اور اس حقیقت سے فاطمی صاحب جیسے لوگ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کابل کی سیاسی صحت کو درست کئے بغیر پاکستان کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی صحت کو درست نہیں کیا جاسکتا۔
تازہ ترین