• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے جس کے ساتھ عوام ہوں وہ جیت جاتا ہے، کیونکہ عوام کی طاقت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کی شروعات میں ہسپانیہ کا حکمران طبقہ بدستور عیش و عشرت میں مگن رہا کہ کوئی ان کی حکمرانی کو چیلنج نہیں کرسکتا۔،دوسری طرف غریب اور مفلوک الحال عوام تھے۔ عوام کے مشتعل ہجوم نے شاہی محلات کو تہس نہس اور تباہ کرکے رکھ دیا۔ روس کے لوگ الیگزنڈر دوم کی عیاشیوں کو اپنی غربت کا مذاق سمجھتے تھے۔ حکمران طبقے نے عوام کو دبانے کے ہزار جتن کئے ۔ سینکڑوں لوگ گرفتار ہوئے۔ سینٹ پیٹرز برگ کے قلعوںمیں تشدد اور پھانسیاں دی گئیں۔ ہر نیا آنے والا زار تاریخ کا پہیہ واپس موڑنا چاہتا، مگر وہ آخری زار ثابت ہوتا اور عوام کا غصہ انقلاب کا بے خوف لاوا بن گیا، پھر راستے کی ہر عمارت اور رکاوٹ خس وخاشاک ہوگئی۔ حکمرانوں کے عشرت کدے، ماتم خانوں میں تبدیل ہوگئے۔ امریکہ کے شہر ’’شکاگو‘‘ میں مزدوروں کی المناک زندگیاں اپنے مالکان کے تعیش کو دیکھ کر کڑھتی تھیں اور پھر تین مئی کی وہ صبح طلوع ہوئی جب حکمرانوںکا عوام سے مقابلہ ہوا اور آخر کار فتح عوام ہی کی ہوئی۔ انقلابِ فرانس میںبھی فتح عوام ہی کی ہوئی۔ انقلاب ِچین کو دیکھیں جب مائوزے تنگ نکلے تو اس کے ساتھ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتاسمندر تھا، چنانچہ فتح مائوزے تنگ کی ہی ہوئی۔ ایران میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ماضی قریب کے انقلابات کو دیکھ لیں۔ 2011ء میںمشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں جو انقلابات آئے تو ان کے ساتھ عوامی طاقت تھی۔ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے خلاف جو بغاوت کامیاب ہوئی ،اس کی وجہ بھی عوامی طاقت ہی تھی۔ اسی طرح تیونس کے حکمران زین العابدین کو کچلنے والے بھی عوام ہی تھے۔پاکستان میں فوجی بغاوت اسی وقت کامیاب ہوئی جب عوام نے ان کا استقبال کیا۔ جب عوام نے انکار کیا تو وہ ہار گئے۔ یاد کریں جب پرویز مشرف نے آئین کو پامال کرکے ایمرجنسی لگائی اور حاضر سروس ججوں کو معطل کردیا تو عوام ججوں کے ساتھ تھے، مشرف کے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود جج بحالی تحریک کامیاب ہوئی اور جج بحال ہوگئے۔ اصل طاقت عوام ہی ہیں جس کے ساتھ عوام ہوتے ہیں وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے جب جب عوام نے آمروں کا ساتھ دیا تو وہ کامیاب ہوگئے اور جہاں جہاں پر عوام نے سویلین کا ساتھ دیا تو فتح نے ان کے قدم چومے۔ ترکی میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت کو ہی دیکھ لیں۔ طیب اردگان کی حکومت جانا یقینی تھا۔ 15 منٹ کے بعد ترکی صدر اپنی کابینہ سمیت جیل میں ہوتے، لیکن جب عوام نے ان کا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا تو حالات پلٹ گئے۔ عوام نے بوٹوں اور ٹینکوں کو شکست دیدی۔ عوام ہمیشہ انہی کا ساتھ دیتے ہیں جو ان کے مسائل کا حل کرتا ہے۔ طیب اردگان نے 1994ء سے لے کر 2016ء تک 22سال ملک و قوم کی ہر قسم کی خدمت ہے۔ بائیس سال پہلے جب استنبول کے میئر بنے تو استنبو ل ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ انہوں نے چند ہی سالوں میں استنبول کو فری جرائم اور فری کرپشن کردیا۔ جس شہر میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے، وہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آنے لگے۔ جب ترکی کے لوگوں نے طیب کی خدمت کو دیکھا تو انہوں نے طیب اردگان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ترکی کے وزیراعظم اور پھرصدر منتخب ہوگئے۔ طیب اردگان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ سفر جاری تھا کہ ترکی کے بہی خواہوں نے شب خون ماردیا، مگر عوام نے انہیں ناکام بنادیا۔اگر ہمارے سیاستدان اور حکمران چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت چلے تو پھر انہیں چاہئے کہ وہ طیب اردگان کی طرح ملک و قوم کی خدمت کریں۔ وہ غیرملکی آقائوں پر تکیہ کرنے کے بجائے عوام کی خدمت کرکے ان کے دل جیتیں، ورنہ جب غیر جمہوری قوتوں کے آنے پرعوام ان کا پھولوں اور مٹھائیوں کے ساتھ استقبال کریں گے۔
اب آجائیں عبدالستار ایدھی کی طرف۔ ایدھی صاحب وہ شخص تھے جنہوں نے 1951ء سے 2016ء تک 66 سال تک ملک و قوم کی خدمت کی۔ ملک کا کوئی خاندان ایسا نہیں ملے گا جس میں ایدھی صاحب کے شروع کردہ فلاحِ انسانیت کے منصوبوں میں سے کسی نہ کسی سے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ ایدھی صاحب نے انسانیت کی خدمت کے 18 مختلف ادارے شروع کئے ہوئے تھے۔ قومی سطح پر 23 ادارے چلارہے تھے۔ جو کام حکومتوں کے کرنے کا تھا وہ کام ایدھی صاحب تنہا کررہے تھے۔ انہوں نے بلارنگ و نسل اور قوم وملک ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر سب کی بلاامتیاز خدمت کی۔ ان کی خدمتِ خلق کا دائرہ پوری دنیا پر محیط تھا۔ انسانیت کی خدمت اور وطن کی محبت ان کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ اگر ان کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی ہے تو یہ ان کا حق تھا۔ عبدالستار ایدھی کی موت کے بعد بعض لوگوں نے ان کی پرانی اخباری باتیں اُٹھاکر ان کو ملحد کہا اور ان کی خامیاں بیان کرکے ان کے عزت و احترام میں کمی کرنے کی ناکام سعی کی، حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے ان کو جو عزت و مرتبہ ملا وہ نظریات کی وجہ سے نہیں، بلکہ انسانیت کی اعلیٰ خدمت پر ملا ہے۔ وہ ایک انتہائی کم پڑھا لکھا اور سادہ مزاج آدمی تھا۔ ایدھی صاحب کا نظریہ تو خدمتِ خلق تھا۔ وہ ہر طبقے کا محسن تھا۔ اپنے محسن کی بعد از مرگ ایسی کردار کشی تو نہیں کرنی چاہئے۔ احسان کا بدلہ احسان نہیں تو کم از کم جفا سے تونہ دیں۔ بقول شیخ سعدیؒ کے قوتِ نیکی بدادی بدمکن۔
اب آجائیں قندیل بلوچ کی طرف! ہمیں اس کے قتل کا دکھ ہےمیری رائے میں اس کا کوئی ایسا جرم نہ تھا کہ اس سے جینے کا حق ہی چھین لیا جاتا۔ وہ ابھی کم عمر تھی، شعور پختہ نہ تھا،دکھوں کی ستائی ہوئی تھی۔ اس کی کوئی صحیح رہنمائی کرنے والا نہ تھا۔ دیہاتی، جاہل اور غریب معاشرے کی پیداوار تھی۔ رفتہ رفتہ وہ درست نہج پر آجاتی۔ ہمارا معاشرہ انتہائی تنگ نظر ہوگیا ہے۔ قوت برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہر طبقہ سمجھتاہے کہ وہی ٹھیک ہے۔ خدارا! دوسروں کو بھی جینے کاحق دیجئے۔ رواداری کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنے اندر وسعتِ ظرفی پیدا کیجیے۔ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیجیے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور معاف کرنا سیکھئے۔ ہماری ترکی کے طیب اردگان سے بھی درخواست ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جانی دُشمنوں کو بھی معاف فرمائیں ۔ اگر آپ نے معاف کردیا تو ترکی کے نیلسن منڈیلا بن جائیں گے۔ اگر انتقام لیا تو انتقام درانتقام کے سارے سلسلے اندھے غار کی طرف جاتے ہیں۔
تازہ ترین