• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کے ایک نامور سیاستدان معراج محمد خان جمعہ کو رات گئے جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے پلٹ کر واپس جانا ہے لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جب رخصت ہوتے ہیں توہمیشہ کے لئے اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ معراج محمد خان نے طلباسیاست اور ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ ایوب دور میں طلبا تحریک کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔اس دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں جو 12طلباکراچی بدر کئے گئے، معراج محمد خان ان کی قیادت کررہے تھے۔ وہ ترقی پسند نظریات کے پرجوش حامی ہی نہیں تھے ساری زندگی اس پر سختی سے عمل بھی کرتے رہے۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی بنائی تو معراج محمد خان اس کے بانی ارکان میںشامل تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنا سیاسی جانشین بھی نامزد کیا تھا۔ 1970کے الیکشن کے دوران معراج محمد خان نے ملک گیر انتخابی تحریک میں حصہ لیا اور انتہائی مؤثر تقاریر بھی کیں ۔ بعدمیں نظریاتی بنیاد پر ان کے جناب بھٹو سے اختلافات پیدا ہوگئے اور معراج محمد خان پہلے وزیر تھے جنہوں نے لیبر پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے نہ صرف وزارت سے استعفیٰ دے دیا بلکہ عملاً مزدور تحریک میں بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے بعد میں بائیں بازو کے کارکنوں پر مشتمل ایک ترقی پسند سیاسی جماعت بنائی لیکن ترقی پسند تحریک کو آگے نہ بڑھا سکے۔ ضیاء دور میں بھی انہیں قید میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ شعلہ بیان مقرر اور بڑے ہی اصول پسند سیاستدان تھے۔ انہوں نے ساری زندگی اپنے اصولوں پر نہ کوئی سمجھوتہ کیا اور نہ ہی سودے بازی کی۔ ایک ایسے کھرے اور سچے انسان تھے جن کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں تھا کہ آج کی سیاست میں ایسے لوگ کم ہی ہوں گے۔ ان کی موت سے سیاست کا ایک روشن باب بند ہوگیا ہے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
تازہ ترین