• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات میں توسیع کا مسئلہ تھوڑےلئے تھوڑے وقفے سے پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ خصوصی اختیارات میں توسیع سندھ حکومت کرتی ہے لیکن سندھ حکومت کو رینجرز کی بعض کارروائیوں پر اعتراض ہوتا ہے تو وہ اگلی مدت کے لئے توسیع دینے سے انکار کر دیتی ہے ۔ اس پر وفاقی اور سندھ حکومت کے مذاکرات ہوتے ہیں اور سندھ حکومت پر کچھ طاقتور حلقوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے ، جس کے بعد اختیارات میں توسیع کر دی جاتی ہے ۔ گذشتہ تقریباً ایک سال سے یہی ہو رہا ہے ۔ اس سے نہ صرف حکومتی اداروں کے درمیان اختلافات کا تاثر پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ دہشت گرد اور شر پسند عناصر بھی اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، جن کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے ۔ اب جبکہ ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے ، کوشش کی جائے کہ اس طرح کی افسوس ناک صورت حال پیدا نہ ہو ۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کے مابین سنجیدہ مذاکرات ہونے چاہئیں ، جو اب تک نہیں ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھ کر کوئی قابل قبول راستہ تلاش کیا جانا چاہئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان رینجرز سندھ نے ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن میں بہت اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے جو تعاون کیا ، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر سندھ حکومت تعاون نہ کرتی یا رکاوٹیں پیدا کرتی تو آج کراچی میں تین عشروں کی بدامنی کے بعد اس طرح امن قائم نہ ہوتا ۔ اس ٹارگٹڈ آپریشن کی مکمل کامیابی کے لئے وفاقی حکومت کے اداروں خاص طور پر پاکستان رینجرز سندھ اور سندھ کی سیاسی حکومت کے مابین ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ مل بیٹھ کر اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے اور ورکنگ ریلیشن شپ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین معاملات کو سیاسی رنگ نہ دیں ۔
مسئلے کے حل کے لئے چند بنیادی باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امن و امان کا قیام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ اگر صوبائی حکومتیں چاہیں تو وہ وفاقی حکومت کے سیکورٹی اداروں کا تعاون حاصل کر سکتی ہیں اور اس ضمن میں کچھ قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان رینجرز سندھ کو فرنٹ لائن فورس کے طور پر ذمہ داری سونپی ، ڈی جی رینجرز سندھ کو ٹارگٹڈ آپریشن کا آپریشنل ہیڈ مقرر کیا اور سندھ پولیس کو سیکنڈ لائن فورس کے طور پر رینجرز کی معاونت کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ بہت حساس نوعیت کا فیصلہ تھا ، جو سندھ حکومت نے کیا کیونکہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں سندھ پولیس نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ سندھ پولیس سے زیادہ دہشت گردوں کا نشانہ کوئی اور فورس نہیں بنی ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ حکومت سندھ کے اس فیصلے سے سندھ پولیس کے ’’ مورال ‘‘ کا بھی سوال پیدا ہوا ، اس کے باوجود ماضی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ کراچی میں آپریشن کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت خود کرتی تو اس آپریشن کو پہلے کی طرح سیاسی طور پر آسانی کے ساتھ متنازع بنایا جا سکتا تھا اور ماضی کی طرح اس آپریشن کے ردعمل میں پیپلز پارٹی کے لوگ بھی مارے جاتے ۔ یہ ایک بہتر فیصلہ تھا کہ آپریشن میں وفاقی حکومت کو بھی شامل کیا جائے ، جس سے واضح طور پر یہ پیغام بھی جائے کہ آپریشن کے معاملات میں سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوج بھی ملوث ہے ۔ یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی اور آپریشن متنازع نہیں ہوا یا متنازع بنانے والوں کی کوششیں ناکام گئیں لیکن ان عناصر نے آپریشن کا رخ موڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری دہشت گردی اور بدامنی کے خاتمے کے لئے شروع کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی فوکس کراچی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پولیس کے خصوصی اختیارات دینے کا نوٹیفکیشن صرف کراچی کے لئے ہوتا ہے ۔
اختلافات اس وقت پید اہوتے ہیں ، جب رینجرز کی طرف سے حکومت سندھ کے دفاتر میں چھاپے مارے جاتے ہیں ، ایسی شخصیات کو گرفتار کیا جاتا ہے ، جنہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب تصور کیا جاتا ہے اور کراچی سے باہر کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔ اس حوالے سے رینجرز کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ڈانڈے بہت دور تک جا کر ملتے ہیں اور انہیں دہشت گردوں کے معاونین ، سہولت کاروں اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرنا پڑتی ہیں ، جن کا انہیں مینڈیٹ حاصل ہے ۔ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف دوسرا ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن میں سندھ حکومت نے مداخلت نہیں کی ۔ اس آپریشن کے نتیجے میں کراچی میں اس کی سیاسی طاقت کا مرکز لیاری اس سے چھن گیا ۔ ٹارگٹڈ آپریشن میں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے حامیوں کو گرفتار کیا گیا یا مقابلوں میں مارا گیا ۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے ہر طرح سے تعاون جاری رکھا لیکن بعض کارروائیوں میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کیسز کے قانونی ٹرائل سے زیادہ میڈیا ٹرائل ہوتا ہے ، جس سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہوتی ہے ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں دوسرے صوبوں میں نہیں ہوتی ہیں ۔ رینجرز اور سندھ حکومت دونوں کے موقف کو سنجیدگی سے سننا چاہئے اور فوری طور پر وفاقی وزیر داخلہ یا وزیر اعظم سندھ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو طے کریں تاکہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سنجیدہ مذاکرات کی ابھی تک کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی ، جس سے معاملات خراب ہوئے ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بیٹھ کر سنجیدگی سے بات کی جائے تاکہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچے ۔ رینجرز بھی اپنا کام بھرپور طریقے سے کرتی رہے اور سندھ حکومت کے لئے بھی ایسے حالات پیدا ہوں کہ وہ اپنا تعاون جاری رکھے۔
تازہ ترین