• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے ایک بار احمد فراز سے پوچھا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے تو انہوں نے کہا تھا۔’’بھارت کے ساتھ ہر سطح پر جنگ ۔ کشمیر کی جنگ ، آزادی کی جنگ ہے حق ِ خود ارادیت کی جنگ ہے اور ہر آزاد ضمیر کو اس کا ساتھ دینا چاہئے ۔میں نے زندگی بھرقلم کے ساتھ کشمیر کی جنگ جاری رکھی ہے مگراس کا آغاز بندوق اٹھا کر کیا تھا‘‘
اور پھر احمد فراز اپنی یادوں میں کھو گئے ’’کالج کے دنوں میں ہم پچیس چھبیس جوان اس مقصد کے لئے چن لئے گئے گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی تھیں ہمیں وردیاں بھی دی گئیں اور پندرہ روزتک فسٹ ایڈ کی ٹریننگ بھی دی گئی بندوق چلانا سکھا یا گیا ۔ہمیں تراڑ کھل پہنچا دیا گیا۔ فرنٹ پر جانے کے لئے کچھ جوان چنے گئے تاکہ وہ معمولی زخمیوں کی فوری مرہم پٹی کر سکیں اور زیادہ زخمی سپاہیوں کو اٹھا کراسپتال لا سکیں ۔ مجھے اتنا یا دہے کہ آرمی بھی وہاں موجود تھی گو وہ ہمارے ساتھ نہیں تھی ، تاہم ایک کرنل اور ایک لیفٹیننٹ ہمارے ساتھ تھے ۔ کرنل کو آرڈ ینیٹ کرتا تھااور قبائلیوں کی رہنمائی کرتا تھا کہ کس وقت اور کس طرح حملہ کیا جائے جو کچھ تدبیر کرنی ہوتی یہی کرنل رہنمائی کرتا تھا مجھے ، حنیف کو اور ایک اور لڑکے کو کرنل کے ساتھ اٹیچ کیا گیا وہاں ایک او رجوان بھی تھا جو سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا ، چنانچہ ہم لڑائی کے علاقے میں پہنچ گئے یہاں کے شب و روز وہی تھے جو ہر میدان جنگ کے ہوتے ہیں توپوں اور مارٹر گنوں کے گولوں کی زدمیں آتی ہوئی زندگی ۔ موت وحیات کے کھیل ، آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے،نکلتے حملے ۔ ایک روز آگے بڑھتے ہوئے جب ہم پر تو پوں اور مارٹر گنوں کے دہانے کھل گئے تو ہم بچنے کے لئے ایک جھونپڑے میں داخل ہوگئے ہمارے ادھر ادھر گولے گررہے تھے ۔ ہم گھاس پھونس کے ایک چھوٹے سے جھونپڑے میںدبکے بیٹھے تھے ایک گولہ جب گرتا ہے تو پھٹ کر بہت سے ٹکڑوںمیں بٹ جاتا ہے اور یہ ٹکڑے اتنے زور دار اور تیز ہوتے ہیں کہ جسموں کے چیتھڑے اڑادیتے ہیں ہم اس جھونپڑے میں سہمے ہوئے گم صم بیٹھے تھے ۔ اتنے خاموش اور چپ چاپ کے ایک دوسرے کے دلوں کی دھڑکنیں سن سکتے تھے لوگوں کی سانس تیز تھی ، جھونپڑا چھوٹا ساتھا اور سچویشن ایسی تھی کہ ہم نروس ہوئے تھے جب ذرا گولہ باری تھمی توہم مشکل سے وہاں سے نکلے اور ایک نسبتا ً محفوظ جگہ پر جاکر پناہ لی ، رات کو رہنے کے لئے ہمیں کرنل صاحب کے ڈیرے پر پناہ مل گئی وہاں کرنل صاحب کا اردلی اور ایک لیفٹیننٹ رہتے تھے ۔ کھانے وغیرہ کا انتظام بھی تھا کرنل کا اردلی ہمیں بھی کھانا دے جاتا تھا ہمارے باقی ساتھی وہیں تراڑکھل میں رہ گئے تھے ۔ یہاں پہاڑوں کی صور ت ِ حال ایسی تھی کہ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہاں تک ہمارا علاقہ ہے اور کہاں دشمن کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک روز ہم نے ایک غلط پہاڑ کراس کر لیا اور دشمن کے علاقے میں پہنچ گئے معلوم ہونے پر واپس پلٹے اور بڑی مشکل سے وہاں سے نکل کر اپنے علاقے میں آئے۔ مگر ایک پہا ڑ سے اترتے ہوئے ہمارے ساتھی حنیف کو کسی شے نے کاٹ لیا دیکھتے دیکھتے اس کے سارے جسم پر چھالے پڑگئے اور تیز بخار ہوگیا اورا تنی زیادہ کمزوری لاحق ہوگئی کہ چلنا مشکل ہوگیا اب اسپتال بھی دور تھا اور کوئی آس پاس بھی نہیں تھا میں نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور چل پڑا ، تھوڑی دور تک چلتا ،پھر اسے اتار کر سانس بحال کرتا اور پھر اٹھا کر چلنے لگتا صبح کو یہ سفر شروع ہوا اوراسپتال تک پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی تھی ، اسپتال کیا تھا ایک چھوٹا سا کیمپ بنا ہوا تھا اور اوپر چھت ڈال دی گئی تھی یہی اسپتال تھا لڑائی میں کسی کا بازوکٹ گیا ، ٹانگ کٹ گئی ویسے زخمی ہوا یہ سب لوگ یہیں لائے جاتے اور انکی مرہم پٹی ہوتی اور انکی زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی تھی ،۔میں حنیف کو لے کر وہاں پہنچا اسے چارپائی پر لٹا دیا اب میرے لئے کوئی جگہ نہ تھی سومجھے رات وہیں گزارنی پڑی ، وہ رات میرے لئے بڑی خوفناک تھی۔ا سپر ٹ اور ٹنکچر کی بو ،خون کی بو دماغ پھٹ رہا تھا، پھر زخمیوں کی چیخیں ، دکھ بھری صدائیں اور کراہیں مجھے مضطرب کررہی تھیں۔ یہ میرے لئے پہلا ہولناک تجربہ تھا ۔ میں اس وقت بہت ینگ تھا ۔ایک اور واقعہ جو ابتک میرے ذہن میں پیوست ہے کیونکہ میں اس میں واضح موت سے بچا تھا۔
ہوا یوں کہ ہم اور سالا ر ایک چھوٹی سی پلڑی پر آمنے سامنے بیٹھے تھے میں نے پوچھا ‘‘ وہ ٹرک جن میں سامان تھا کدھر چلے گئے ۔ اس نے کہا ’’ مجھے پہلے ہی لوگوںنے کہا تھا کہ یہ لڑکا کمیونسٹ ہے اسے کیوں ساتھ لے جارہے ہو اور یہ کہتے ہی اس نے گولی چلادی۔ گولیاں میرے پائوں کے قریب زمین میں لگیں ان کی اڑائی ہوئی دھول میرے چہرے پر پڑی دوسرے نوجوانوں نے اسے پکڑ لیا اور برا بھلا کہنے لگا اس نے معافی مانگتے ہوئے کہا ’’ وہ تو بالکل انجانے میں میرا ہا تھ لبلبی پر لگ گیا ۔یعنی میں نے بندوق اٹھا کر جو کشمیر کی جنگ شروع کی تھی زندگی بھر قلم سے بھی وہی جنگ لڑتا رہا ۔
پھر وہ وقت بھی آیاجب میں نے فوج کے سیاسی کردار کے خلاف نظمیں لکھیں مگر میں کشمیر کے مسئلے پر ہمیشہ افواجِ پاکستان کے ساتھ رہا ہوں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ اس مسئلے پر ہمارے بعض دوسرے ترقی پسندوںکا نظریہ کچھ واضح نہیںرہا اورانہوں نے مسئلہ کشمیر پر اپنےموقف کا اظہار نہیں کیا ‘‘ ۔
مجھے آج احمد فراز اس لئے یاد آئے کہ آج پھر ہم ہر سطح پر کشمیر کی جنگ کا آغاز کرنے لگے ہیں مگریہ جنگ کہیں پھر کسی کارگل پر منتج نہ ہوجائے ۔اب یہ بات طے کرلینی چاہئے کہ بندوق سے جنگ صرف افواجِ پاکستان نے لڑنی ہے کیونکہ صرف وہی پاکستانی مجاہد ہیں۔
اب کسی احمد فراز کو بندوق اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے اور ہاں یہ بھی دھیان میں رکھا جائے کہ کہیں پھرہماری کاروباری مصلحتیںہمیں راستہ بدلنے پر مجبور نہ کردیں ۔
تازہ ترین