• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں!
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے:کامیابی دھرنے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے، ہمارے خلاف کیا کچھ نہیں کہا گیا لیکن عوام نے مسترد کر دیا، ہم منتظر ہیں کشمیر بنے گا پاکستان بڑے عرصے بعد ایک معقول بیان سامنے آیا ہے، جس سے واضح ہو جاتا ہے، کہ پاکستان کا اصل مدعا کیا ہے، یہ درست ہے کہ کامیابی دھرنے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے، کیا وہ اس کرنے میں عوام کے فوری نوعیت کے مسائل شامل کر سکتے ہیں، کشمیر تو ابھی تک بھارتی سیاستدانوں کی طرح ہمارا ایک سیاسی کامیابی کا زینہ ہے، اور دونوں جانب سے محض بات برائے بات کی جا رہی ہے، کہ ایک کہہ رہا ہے کشمیر نہیں دیں گے اور دوسرا بگل بجا رہا ہے کہ لے کر رہیں گے کشمیر، یہ کہنا کہ ہم منتظر رہیں گے کشمیر بنے گا پاکستان، نعرہ تو بڑا وزنی مگر انتظار کی حد تک، وزیراعظم نے خود ہی تو فرمایا ہے کہ کامیابی کچھ کرنے سے ملتی ہے، فقط انتظار سے نہیں ملتی؎
ہم مانگ کے لائے تھے چار دن کہ مل جائے گا کشمیر
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دھرنے میں اور کرنے میں کیا فرق ہے یہ تو خان صاحب بتا سکتے ہیں، جنہوں نے دھرنے ایجاد کئے، اور ریکارڈ قائم کیا، مگر ان کی اپنی پارٹی ڈانواں ڈول ہے، اس لئے ان کو کہنا پڑا کہ جس نے جانا ہے جائے، یہ نہ ہو کہ سارے پی ٹی آئی کو سر پر رکھے پورا ٹوکرا ہی ساتھ لے جائیں، اور ان کے پاس دھرنے رہ جائیں اور کرنے نواز شریف کے حصے میں آئیں، ویسے بھی وہ مہنگائی کے خاتمے، لوڈ شیڈنگ کے زوال اور کرپشن کے خلاف کچھ کرنے کے سوا سارے کرنے کر چکے ہیں، کشمیر پاکستان کیسے بنے گا جبکہ کشمیر کمیٹی پر مولانا بفضلہ اولا نا بیٹھے کشمیر کو پاکستان بننے میں حائل کئی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں، کانگریسی پس منظر رکھنے والے سے یہ توقع کہ وہ لے کے دیں گے کشمیر یہ فقط ایک لکیر ہے، جسے کئی برسوں سے مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف مل کے پیٹ رہے ہیں کیا یہی کرنے کے کام ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
قرضہ لوٹ مار اور عام معافی
ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ سابق فوجی افسران، تاجروں و مالیاتی اداروں نے 30برس میں سوا چار کھرب سے زائد کے قرضے معاف کرائے، یہ قرضے آخر کسی نے معاف کئے ہوں گے، اس ’’کسی‘‘ کو پکڑیں اور سوا تین کھرب اس سے نکالیں، اور اگر یہ دنیا میں نہیں ہیں تو ان کے اثاثے ان کے مورث تو موجود ہیں، قومی خزانے سے اول تو قرضہ لینے کی کوئی تُک نہیں، اور اگر یہ قومی دولت پر ڈاکہ ڈالا ہی گیا ہے جسے قرضے کا نام دیا جاتا ہے، تو اس کی واپسی ہونی چاہئے، یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی میں قرضہ دے کر معاف کرنے کا کیا جواز ہے؟ افسر فوجی ہو یا سویلین جب ریٹائر ہو جائے تو اس کا کام ختم، لیکن مراعات جاری رہتی ہیں، اور ان سفید ہاتھیوں کا گلہ اب خاصا وسیع ہو چکا ہے، ریٹائرڈ فوجی افسران، تاجران، مالیاتی اداروں کے مالکان کو قرضے کیوں دیئے گئے کیا یہ قرضے دینے والوں کے باپ کا مال تھا یا غریب عوام کا جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اور کوئی غریب آدمی معمولی سا قرضہ لے لے تو بینک والے اس کے پیچھے غنڈے چھوڑ دیتے ہیں، یہ غنڈے، غنڈوں کا تعاقب کیوں نہیں کرتے اس لئے کہ ان کو حکم ہے کہ اشرافیہ کو ہاتھ نہیں لگانا، قلم کبھی ظلم کی تائید نہیں کر سکتا اور اگر کرتا ہے تو اسے قلم کر دینا چاہئے، آخر کیا وجہ ہے کہ ظلم کے خلاف لکھنے والوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے، اور فقط جھوٹی سیاست کو اعلیٰ موضوعات کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے، لا علم سادہ لوح غریب عوام کو بتایا جائے کہ ان کی جمع پونجی قرضوں کی معافی کے راستے ان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے، وہ اپنی قومی دولت کو بچانے کے لئے کوئی چارہ کریں کسی کو وزیراعظم بنانے کے لئے دھرنے نہ دیں، کیا اس ملک میں ماڈل ٹائون کے سانحے کے علاوہ کوئی اور ظلم زیادتی نہیں ہوتی جس کے خلاف بھی آواز بلند کی جائے۔
٭٭٭٭
کالا باغ ڈیم کی بنیاد پر ووٹ دیں
چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے کہا ہے:کالا باغ ڈیم سے صوبوں میں اتحاد بڑھے گا پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو گا۔ ورلڈ بینک کہتا ہے 2025تک ہمارے پاس پانی نہیں رہے گا۔ ایم کے آر ایس سے دانشوروں کا خطاب، چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے جنگ کے ادارتی صفحات پر 26مضامین لکھ کر کالا باغ ڈیم کے مسئلے کو کھول کر رکھ دیا، بلاشبہ یہ درست ہے کہ کالا باغ ڈیم سے صوبوں میں اتحاد بڑھے گا، مگر ہم اپنے قومی مفادات کے وہ خوش قسمت دشمن ہیں کہ اگر چیئرمین کالا باغ ڈیم پر انسائیکلوپیڈیا بھی لکھ دیں تو ہم اپنے عوام تک کالا باغ ڈیم کے فوائد نہیں پہنچنے دیں گے، واصف ناگی بھی اس جہاد میں ان کے ساتھ شامل رہے اور واپڈا کے ساتھ مل کر ایک عظیم الشان سیمینار منعقد کر ڈالا، اس سیمینار اور چیئرمین واپڈا کے 26 آرٹیکلز سے کم از کم یہ تو ہو گیا کہ ایک اخبار نے کالا باغ ڈیم کو مہم کی صورت زندہ کر دیا، اور ان مضامین نے کالا باغ ڈیم جیسے قومی مفاد کے منصوبے کے کسی پہلو کو مخفی نہیں رہنے دیا، اس سے عوام کو معلوم ہو گا کہ ان کے مفاد کی لاش پر کون کون سیاست کر رہا ہے، جس ملک میں 2025میں پانی کی بوند نہیں ہو گی اس کا کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنانا اور طرح طرح کے خدشات ظاہر کرنا بہت بڑی بدقسمتی ہے، عوام پہچان لیں کہ کالا باغ ڈیم کے فوائد کون کون ان تک نہیں پہنچنے دے رہا، بلکہ وہ یہ طے کر لیں کہ 2018کے انتخابات میں ووٹ ہی اس کو دیں گے جو اقتدار کے روز اول ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دے گا، اور اگر ووٹ لے کر دھوکہ دیا گیا تو پھر 20کروڑ عوام جانیں اور حکمرانوں کا گریبان جانے، واصف ناگی کالا باغ ڈیم کے حق میں مہم جاری رکھیں وہ اگر کامیاب ہو گئے تو ان کی عاقبت اور غریب عوام کے دن سنور جائیں گے، روزنامہ جنگ مبارکباد کا مستحق ہے۔
٭٭٭٭
ہارن دے کر پاس کریں
....Oتجزیہ کار آزاد کشمیر میں عمران نے سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا۔
سیاسی پختگی ہوتی تو ناپختگی کا ذکر کیا جا سکتا تھا۔
....Oقندیل کے قتل کا فیصلہ برادری، رشتہ داروں نے مل کر کیا۔ رپورٹ
اس برادری اور جملہ رشتہ داروں کو ہی عدالتوں میں بٹھا دو ججوں کا کیا کام ہے۔
....Oمریم نواز:وزیراعظم جہاں سے گزر جائیں وہ جگہ جلسہ گاہ بن جاتی ہے،
خدا کرے کہ وہ جہاں سے گزر جائیں وہ مقام خوشحال ہو جائے۔
....Oٹرمپ:الیکشن نامزدگی منظور، صدر بن کر امریکہ کو خوشحال کر دوں گا۔
امریکہ کی خوشحالی کا دارومدار وہاں موجود مسلمان پر ہے انہیں نکالا تو تباہ حال ہی کر دیں گے،
....Oایان علی کے وارنٹ گرفتاری 5روز کے لئے معطل،
لگتا ہے ان کی کیٹ واک جاری رکھی جائے گی۔
....Oپیپلز پارٹی:آزاد کشمیر الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی تحریک چلائیں گے نتائج مسترد کرتے ہیں۔
اب پائوں سر پر بھی رکھ لیں کچھ نہیں ہو سکتا، اپنی پارٹی کی صحت پر توجہ دیں۔
....Oتحریک انصاف کے ناراض گروپ نے کمر کس لی پرویز خٹک پر سخت تنقید، پارٹی بھلے ناراض ہو کر چلی جائے سٹے کے ساتھی کو نہیں چھوڑ سکتے۔
تازہ ترین