• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم کا عنوان بظاہر اگرچہ معنی خیز بلکہ عجیب سا لگتا ہے لیکن برسر زمین اگر جمہوریت کو تلاش کیا جائے تو اس کے مظاہر خال خال ہی دیکھنے میں آتے ہیں، اسی خال خال حقیقت کے تناظر میں اساتذہ مسلسل ورد کئے جاتے ہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی بھلی آمریت سے بہتر ہے۔ پاکستان میں یہ جمہوریت قیام پاکستان تا ایوبی آمریت یوں لولی رہی ہے کہ اس دوران قائداعظم کے کھوٹے سکوں کی حکومتوں کے پے در پے شکست و ریخت کی کہانیاں چہار دام عام ہوئیں کہ جواہرلعل نہرو کو کہنا پڑا کہ اتنی جلدی تو میں دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں … پھر جب ایوبی و یحییٰ خانی مارشل لائوں کے بعد جمہوریت کا احیا ہوا تو شروعات ہی میں اس جمہوریت کو کسی اور نے نہیں سیاستدانوں نے ہی یہ کہہ کر لنگڑا کر دیاکہ 82کا ہندسہ 160سے زیادہ ہے ، بزعم خود جمہوریت کی توانا آواز قرار دی جانے والی پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ عوامی لیگ کی 160نشستوں کے مقابل ان کی 82نشستیں زیادہ ہیں لہٰذا اقتدار انہیں دیا جائے، بھٹو صاحب نے اعلان کر دیا کہ جو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکا جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائینگی ، مرحوم و مغفورخان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو جیسے صاحباںِظرف ڈھاکا گئے بھی،یوں اگرچہ بھٹو صاحب کسی کی ٹانگ تو نہ توڑ سکے لیکن ملک کی ایک ٹانگ ایسی ٹوٹ گئی کہ وہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا، پھر بھٹو صاحب کی جمہوریت آگئی، بھٹو صاحب سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے، ان کے جمہوری دور سے گلبدین حکمت یار، پروفیسر عبدالرسول سیاف، برہان الدین ربانی جیسے جہادی رہنمابرآمد ہوئے، حیدرآباد ٹریبونل جیسے فسطائی یادگار تو ایک طرف، ان کا دور مسلسل ایمرجنسی کی زد میں رہا،وڈیروں کوحکومت کا حصہ بناکر سیاسی طور پر مضبوط بنایا اور حقیقی لبرل و سیکولر قوتوں کو کمزورکردیا، دیگر کارناموں کو بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں، بس تصور کر لیجئے کہ مزید کارنامے مزید شاندار تھے، لہٰذاجب مارشل لاء نے بھٹو صاحب کے تخت کو تاراج کیا تو کوئی بھی سڑکوں پر نہیں آیا۔پھر ضیاء الحق صاحب کے مارشل لا سے پرویز مشرف کے مارشل لا تک سیاستدانوں نے جمہوریت کے ساتھ جوکیا ،یا اب کر رہے ہیں کیا اس سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت جمہوریت سے کس قدر مخلص ہے! بلاشبہ فی زمانہ جمہوریت سے بہترین کوئی ریاستی بندوبست نہیں، ہم مگرجب تنقید کرتے ہیں تو اس سے مراد جمہوریت کی وہ روح نہیں ہوتی جو اقوام عالم میں شاداں ہے بلکہ وہ بے گورو کفن جمہوریت ہوتی ہے جس کی لاش پر پاکستانی سیاستدان اپنی ’عاقبت ‘سنوارنے میں لگے رہتے ہیں ۔آپ اور ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی معنی ’’عوام کی حکومت‘‘ کے ہیں Democracy کا لفظ یونانی زبان کے دو الفاظ Demos بمعنی لوگ اور Kratosبمعنی حکومت سے لیا گیا ہے، اب ایمانداری بشرط استواری یہ ہے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر کہا جائے کہ کیا پاکستان میں درحقیقت عوام کی حکومت ہے ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ جمہوریت ہو کہ آمریت یہ صرف خواص ہی کے کام آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بار بار کی آمریتوں نے ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر عوام و ملک کے ساتھ ساتھ حکمران طبقا ت بھی کمزورہوتے ،لیکن برسرزمین تو صرف عوام ہی زندہ درگور ہیں..آج پھر جمہوریت جمہوریت کی گردان جاری ہے،لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں جمہور کا تو کچومر نکل جائے لیکن خواص مزے اڑائے، ہمارے مدعا کو ملاحظہ فرمائیں مجروح سلطان پوری کس دو ٹوک انداز میں بیان کر رہے ہیں۔
میں تو جب مانوں کہ بھر دے ساغرِہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا
پاکستانی جمہوریت نے عوام کا کیا حال کر رکھا ہے اس سلسلے میں بین الاقوامی رپورٹس کے اشارے تشویشناک ہیں۔عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے جو روزانہ بمشکل ڈیڑھ سو روپے ہی کما پاتی ہے۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے اکتیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ‘کی رپورٹ کے مطابق غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبرپختونخوا میں32 اورپنجاب میں سب سے کم ، یعنی صرف 19 فیصد ہے۔پاکستانی جمہوریت عوام کے ساتھ دن دہاڑے کیا کر رہی ہے اس کا اندازہ تعلیم و صحت کے شعبوں میں سیاستدانوں کی بے ایمانیوں سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کاصرف 2.2 فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے،اس حوالے سے دنیا کے تمام ممالک میں پاکستان سے بری صورتحال صرف نائیجیریا کی ہے جہاں تعلیم کی شرح پاکستان سے بھی کم ہے۔
انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اپنی رپورٹ برائے 2015 ء میں بتایا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔اندازہ لگائیے کہ 19کروڑ کی آبادی میں جب ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہوں، تو ضعیف العمر،جوانوں اور لڑکوں کو نکال کر باقی کتنے بچے تعلیم حاصل کررہے ہونگے، پھر تو صرف اشرافیہ اور ’جمہوری ‘ سیاستدانوں کے ہی بچے رہ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں کی ددسری بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ ناخواندہ بالغ افرادکی تیسری بڑی تعداد بھی پاکستانیوں پر مشتمل ہے ۔ صحت کے حوالے سے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں تقریباً 19کروڑ آبادی کیلئے صرف1142اسپتال، 5449ڈسپنسریاں ،5438بنیادی مراکز،671زچہ بچہ مراکز ہیں۔
یونیسکو رپورٹ کے مطابق تعلیم کے حوالے سے دنیا کے 113ممالک ( جن کے اعدادوشمار دستیاب تھے) میں پاکستان 106 ویں نمبر پر
عرض یہ ہےکہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان میں بھی ترکی جیسا ’کو دیتا‘ ہوا تو کوئی بھی سڑک پر نہیں آئے گا، تو یہ جمہوریت سے نہیں ان سیاستدانوں سے بیزاری کا نتیجہ قرار دیا جائے گا جنہوںنے دستیاب مواقع کو جمہوری و عوامی استحکام کی بجائے اپنے خاندان و گروہی استحکام کیلئے استعمال کیا، یہ جماعتیں اپنےتئیں اس قدر جمہوری ہیں کہ یہ اپنی جماعتوں میں انتخابات کو بھی کار زیاں سمجھتی ہیں، جماعت اسلامی اور اے این پی کے ماسوا کسی بھی جماعت میں باقاعدگی سے انتخابات کا نظام رائج نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ عوام چونکہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کے کرتوتوں سے آگاہ تھے اس لئے نہ تو وہ بھٹو صاحب کے تختہ دار پر جا پہنچنے کے وقت سڑکوں پر آئے اور نہ ہی پرویز مشرف کے آجانے پر.. اس حوالےسے البتہ مٹھائیاں تقسیم کرنے کی بابت عمران خان صاحب کی خوش فہمی یوں بے جا سی لگتی ہےکہ وہ بھی اب ’آزمودہ‘ہیں اور یہ کہ اُن میںاور موجودہ و سابق حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بنی گالا سے کوئی مست و مخمور آواز اٹھتی ہے تو فوری اسی لے میں جواب بھی آجاتا ہے۔
میرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تازہ ترین