• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی تاریخ میں کشمیر ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے کشمیری اور پاکستانی عوام کاگہرا تعلق ہے۔ایک ایسا تعلق جسے سرحدی بندشیں اور بھارتی فوج کی سازشیں کبھی ختم نہیں کرسکتیں۔مختلف ادوار میں پاکستان کے سیاستدان کشمیر سے محبت کا اظہار کرتے رہے مگر پی پی پی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا کشمیر سے محبت کا انداز بڑا نرالہ تھا۔کشمیر میں ایک مرتبہ جلسے کے دوران بھٹو صاحب نے کہا کہ "انسان ،انسان کی ذات سے خطا ہوتی ہے ،مجھ سے کتنی بھی بڑی خطا ہو ،میں بھی انسان ہوں،مگر کشمیر کے معاملے میں ،میں اپنی نیند میں بھی غلطی نہیں کرسکتا۔ویسے تو گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف نے بھی سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ "میں جتنا پاکستانی ہوں ،اتنا کشمیری بھی ہوں"۔یہ وہ جذباتی الفاظ اور پاکستان کی کشمیر سے محبت ہے ،جس نے آج تک دونوں کو مضبوطی سے جوڑا ہوا ہے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یہ کہنا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ،بابائے قوم کی کشمیر ی عوام سے والحانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔جبکہ شہ رگ کا براہ راست تعلق نبض (Pulse)سے جڑا ہوتا ہے ۔اور نبض(pulse)نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔آگے چل کر (Pulse)کی اصطلاح او ر اہمیت پر تفصیلی بات کریں گے۔
ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے حالات کشمیر پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔اسلام آباد کے سیاسی وزن کو تولنے کے بعد کشمیری عوام اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔مگر ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا کہ کشمیر کے حالات پاکستان پر اثر انداز ہونگے۔گزشتہ چار دہائیوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کی وجہ سے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو سہارا ملتا ہے مگر اس مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کشمیر کے انتخابی نتائج پاکستان میں سیاسی استحکام کے لئے اہم ہونگے۔کشمیر کے انتخابات کا براہ راست اثر پاکستان کی سیاست پر پڑے گا۔قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل جو سیاسی جماعتیںدھرنے ، نوازشریف کے استعفیٰ اور مسلم لیگ نواز کی حکومت کی رخصتی کی باتیں کررہی تھیں ،بہرحال حالیہ نتائج سے بہت فرق پڑے گا۔42نشستوں میں سے 31سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوکر مسلم لیگ نواز سب سے بڑی اکثریتی جماعت بن کر ابھری ۔کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوگا جب مسلم لیگ ن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی۔اس سے قبل نوازشریف نے کشمیر کے عام انتخابات میں ہمیشہ مسلم کانفرنس و دیگر جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کرکے پیپلزپارٹی کا مقابلہ کیا ہے۔2016کے عام انتخابات پہلا موقع تھے جب مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس نے علیحدہ علیحدہ اپنے امیدوار میدان میں اتارے ۔انتخابی دھاندلی کی گونج سے بچنے کے لئے فوج کا سہارا لیا گیا اور ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر مسلح فوجی جوان تعینات تھے۔مگر اس کے باوجودحکمران جماعت مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی واضح اکثریت سے کامیابی بہت سوں کے لئے پیغام ہے۔کیونکہ حالیہ عام انتخابات صرف کشمیر کی حدود میں ہی منعقد نہیں ہوئے بلکہ 12حلقے ایسے بھی تھے۔جن کے انتخابات پاکستان میں ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ انتخابی مہم کے دوران نوازشریف پر بھارت نواز اور مودی کے دوست ہونے کا الزام لگاتے رہے،جبکہ پاناما لیکس معاملے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی بار بار کیا گیا مگر اس کے باوجود نوازشریف کا تمام حلقوں میں کلین سوئپ کرنا بہت سے حلقوں کے لئے واضح پیغا م ہے۔قارئین کی معلومات کے لئے گوش گزار کرتا چلوںکہ کشمیر کے جن شہریوں کی اکثریت پاکستان میں موجود ہے۔ان شہروںکی آبادیوں کو ملاکر مختلف حلقے بنائے گئے ہیں اور تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو لاہور ،سیالکوٹ،راولپنڈی ،نارووال اور کراچی کم پنجاب کے حلقے میں شکست ہوئی ہے۔تمام بڑے شہروں سے تحریک انصاف و دیگر اپوزیشن جماعتوں کی شکست مخصوص ٹولے کے لئے واضح اشارہ ہے۔کالم کے آغاز میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔شہ رگ کا اور نبض(Pulse)کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور شہ رگ نبض کا تعین کرتی ہے۔آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ شہ رگ نے عوامی (Pulse)نبض کا تعین کردیا ہے۔ قارئین کو سمجھانے کے لئے جان بوجھ کر بار بار پلس کا لفظ استعمال کیا ہے۔کیونکہ مخصوص طبقہ مخصوص انداز میں (Pulse)کا ذکر کرتا ہے اور جان بوجھ کر ملک کے مختلف حصوں سے پلس لی جاتی ہے۔اس لئے حالیہ انتخابات میں طے ہوا ہے کہ شہ رگ نے عوامی نبض کا تعین کردیا ہے۔
جبکہ کشمیر انتخابات کے بعد دوسرا اہم معاملہ اگست کے دھرنوں سے جڑا ہوا ہے۔ان انتخابات سے قبل توقع لگائی جارہی تھی کہ کشمیر میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن واضح اکثریت نہیں لے سکے گی۔گو کہ مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی مگر تحریک انصاف اور پی پی پی بھی اس کا بھرپور مقابلہ کریں گی۔مگر انتخابی نتائج اس کے برعکس آئے ۔حالانکہ کشمیر کے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بھرپور انتخابی مہم چلائی،پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پاکستان اور کشمیر دونوں علاقوں کے حلقوں میں بھرپور تقاریر کرتے رہے۔بلاول بھٹو زرداری نے تو پوٹھوہار سے کشمیر تک انتخابی ریلی بھی نکالی،خوب جلسے کئے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کشمیر تحریک کو خوب گرمایا ۔کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ریلیاں نکالیں۔مگر اس کے برعکس مسلم لیگ ن کے سربراہ انتخابی مہم کا حصہ نہیں تھے۔حتی کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے علاوہ کوئی صف اول کا رہنما بھی انتخابی مہم کا حصہ نہیں تھا۔ماضی میں پاکستان کے وزرائے اعظم اپنی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کے لئے کشمیر جاکر انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے رہے ہیں۔سابق دور حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خود جاکر کشمیر الیکشن کی باگ ڈور سنبھالی تھی ،مگر وفاقی حکومت کی جانب سے اس بار ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔ایسی صورتحال میں بھی تحریک انصاف کا انتخابی نتائج میں چوتھے نمبر پر آنا عمران خان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔جبکہ پی پی پی کے سینئر وزراء کا الیکشن ہار جانا واضح کرتا ہے کہ عوام نے ان کی حکومتی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے۔کشمیر کے حالیہ نتائج اس بات کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ عوام کو پاناما لیکس سمیت کسی بھی الزام سے کوئی غرض نہیں ہے۔عوام آج بھی ترقی اور مستحکم ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں۔جو جماعت بہتر انفراسٹرکچر ،تعمیری منصوبے اور خوشحالی کے وعدے کرے گی ،عام انتخابات میں عوام اسے کامیاب کرائیں گے۔حالیہ انتخابی نتائج تحریک انصاف سمیت دھرنا دینے والی تمام پس پردہ قوتوں کے لئے واضح فیصلہ ہے۔بہتر ہوگا کہ عمران خان بھی کسی کی در پردہ حمایت حاصل کرنے کے بجائے عوام کی طاقت پر یقین کریں۔نوازشریف اور ان کی حکومت کے خلاف بھرپور اپوزیشن کریں مگر جمہوری طریقے سے۔معاملات کو سڑکوں پر لانےکے بجائے پارلیمنٹ میں حل کریں۔دھرنوں کی سیاست متعارف کرانے سے بہتر ہے عوامی معاملات پر پارلیمنٹ اجلاسوں میں احتجاج کریں۔خدارا جمہوری اقدار کو مضبوط کریںکیونکہ امپائر فیصلہ سنائے نہ سنائے شہ رگ نے فیصلہ ضرور سنادیا ہے اور شہ رگ کا فیصلہ ہی عوامی نبض(Pulse) کا ترجمان ہوتا ہے۔
تازہ ترین