• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما پیپرز منظرعام پر آنے کے بعد بھارت میں کالے دھن کو سفید کرانے کیلئے 30 ستمبر کی ڈیڈ لائن مقرر

لاہور(صابر شاہ) پاناما پیپرز کے ذریعے1 کروڑ 15لاکھ دستاویزات کے منظرعام پر آنے کےبعد جس میں 2لاکھ14ہزار488آف شور کمپنیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ دنیا کو ہلا دینے والے ان انکشافات کے چند ماہ بعد ہی بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے بھارتی سیاستدانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ30ستمبر 2016ء تک ناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت اور دیگر اثاثے ظاہر کریں بصورت دیگر سزا کیلئے تیار ہو جائیں جس میں انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ 30 ستمبر کے بعد حکومت دولت چھپانے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کریگی۔ ایک بھارتی اخبار’’دی ہندو‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم جیولرز کی طرف سے ایک تقریب میں مدعو تھے اوراس موقع پر انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ان سب سے واقف ہیں جو ارب پتی تاجر بن چکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی دولت کا حساب دیں۔ ان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ 30ستمبر سے پہلے صاف ستھرے ہو جائیں۔ اخبار کے مطابق وزیراعظم مودی نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ کالادھن جمع کرنے والوں کےساتھ30ستمبر کےبعد جو سلوک ہونیوالا ہے وہ نہیں چاہتے کہ ایسا کیا جائے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ یکم جون سے شروع کی جانیوالی انکم ڈیکلریشن سکیم کے تحت کالا دھن جمع کرنیوالوں کویہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ30ستمبر تک اپنےتمام اثاثے ظاہر کریں،ٹیکس  کی ادائیگی اور45فیصد جرمانہ دینا ہوگا جو اس سکیم میں شامل نہیں ہونگے انہیں جیل جانے سمیت دیگر سزائوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ سکیورٹی کے پیش نظر متعلقہ محکمہ کی طرف سے ابتدائی طور پر 7لاکھ افراد کو اس حوالے سے نوٹسز اور مراسلے جاری کیے جائینگے۔ ’’جنگ گروپ اور جیو ٹی وی ‘‘کی ریسرچ کے مطابق بھارت میں 1997ء میں کامیاب ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا آغاز کیا گیا تھا۔بھارتی اخبار’’انڈین ایکسپریس‘‘ 28اکتوبر 2015ء کی اشاعت میں لکھتا ہےکہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم شروع کرنے کے پروگرام سے ملک میں کالے دھن پر کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی تھی جبکہ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل(NDC)پہلے ہی یہ تجویز دے چکی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم دیوگوڈا نے اس تجویز کی حمایت کی اور سابق بھارتی وزیرخزانہ چدمبرم نے بھی اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ اس سکیم کے عملی نفاذ سے ملکی معیشت کو متوازن کرنے میں مدد ملے گی۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہVDISیعنی رضا کارانہ طور پر آمدنی ظاہر کرنے کی اس سکیم جس میں آمدنی کے ذرائع، کل آمدنی، نقد رقم یا اثاثوں کی شکل میں، بھارت یا بھارت سے باہر رکھی دولت پر سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا گیا۔سیکرٹری خزانہ این کے سنگھ کے مطابق مذکورہ سکیم وسیع پیمانے پر شروع کی گئی تھی۔ مذکورہ سکیم کے تحت اس وقت کی بھارتی حکومت کو صرف ٹیکس وصولی کی مد میں 100ارب روپے جمع ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکیم سے متعلق لوگوں میں آگاہی بڑے پیمانے پر تھی۔1997ء میں 4لاکھ75ہزار133بھارتی شہریوں نے تقریباً 333.39 ارب روپے ظاہر کئے۔ 1997 میں بھارت کی آبادی 90کروڑ تھی صرف ایک کروڑ 20 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے تھے جبکہ 10 لاکھ سے زائد آمدنی والے صرف 12ہزار افراد ٹیکس نیٹ کا حصہ تھے۔ سب سے زیادہ رقم 20.32 ارب روپے ممبئی سے جمع ہوئے، دہلی دوسرے نمبر پر رہا جہاں سے 12.28 ارب جمع ہوئے اور احمد آباد 9.68 ارب روپے کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ طے شدہ پالیسی کے تحت 75.94ارب روپے ریاستوں کو منتقل کئے گئے۔ ظاہر کی گئی رقم 35 فیصد ٹیکس ادائیگی تھی جبکہ دیگر کیلئے یہ شرح 30فیصد تھی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں 1997کی ایمنسٹی سکیم کی مذمت کی اور کہا کہ یہ سراسر حقیقی ٹیکس گزاروں سے دھوکہ کے مترادف ہے۔ 1993کے آغاز میں گولڈ بانڈ سکیم بھی ایمنسٹی سکیم کا حصہ تھی جو سونے کا کاروبار کرنے والوں کے لئے ایک ترغیب تھی۔ یہ سکیم کامیاب رہی۔ تاہم ایس ڈی اے حکومت کی متعارف کردہ سکیم محض سات سو افراد نے استعمال کی جس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ 1997کی سکیم کی نسبت مذکورہ سکیم میں لچک کم رکھی گئی تھی۔ 1951میں رضاکارانہ طور پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی سکیم کے تحت70کروڑ روپے ظاہر کئے گئے۔ ریسرچ کے مطابق بھارت کے علاوہ دیگر ممالک امریکہ، برطانیہ، اٹلی، ارجنٹینا، آسٹریلیا، بلجیم، ڈنمارک، فرانس، سویڈن، یونان، روس، جرمنی، سپین، میکسیکو، ہالینڈ، ناروے، پیرو، کولمبیا، آئرلینڈ، ایکواڈور، پانامہ، فلپائن، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ہنڈراس نے بھی مختلف اوقات میں مختلف ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائیں۔ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے جہاں ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کی شکل میں کئے گئے اقدامات غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کالے دھن یا آف شور کمپنیوں کی شکل میں بیرون ملک منتقل کیا جانے والا سرمایہ طے شدہ سخت قوانین کے تحت بہرصورت ملک میں واپس لانا چاہئے۔ اپریل2016 میں ایف بی آر حکام کو توقع تھی کہ 30اپریل 2016 کی مقررکردہ حتمی تاریخ تک ٹیکس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے تاجروں کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ گئی اور ممکنہ ہدف100 ارب روپے ہوگا۔ 18 اپریل 2016 تک 7 ہزار9 سو افراد نے اس سکیم کا فائدہ اٹھایا جنہوں نے 76 کروڑ روپے جمع کرائے۔ سابق صدر پرویز مشرف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائی گئی تھیں۔ امریکہ میں 2014 میں انٹرنل ریونیو سروس (IRS) کے تحت جرائم کی دنیا کے پیسے کو قانون شکل دینے کیلئے شروع کیا گیا جس میں ان عناصر کو ایک موقع دیا جاتا تھا کہ وہ مختلف شرائط پر عمل کرتے ہوئے اپنی دولت کو کسی ضابطہ اخلاق میں لا سکتے ہیں۔ OVDP(آف شور والنٹری ڈسکلوژر پروگرام)کی شرائط میں تبدیلی بھی کی جا سکتی تھی مثلاً انٹرنل ریونیو سروس ٹیکس گزارو ں کے جرمانے میں اضافہ کر سکتی تھی یا ٹیکس گزاروں کی تخصیص کرنے کی بھی مجاز تھی یہ بھی ممکن تھا کہ مذکورہ پروگرام کو کسی بھی وقت ختم کر دیا جاتا سکیم میں شامل ہونے والے ٹیکس دہندگان کے لئے ضروری تھا کہ وہ تمام رقم بشمول ٹیکس منافع آف شور پینلٹی جرمانے کی فائل اور عدم ادائیگی جرمانہ کی فائل جمع کروائیں۔ٹیکس دہندہ اگر مذکورہ دستاویز جمع نہیں کروا سکتا تو اسے اپنی آمدنی اور دیگر معاشی سرگرمیوں سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہو نگی ۔ جون 2012ء میں آئی آر ایس کمشنر نے میڈیا کو بتایا کہ مذکورہ پروگرام کے تحت ٹیکسز کی مد میں 5ارب ڈالر وصو ل ہوئے ہیں جبکہ 33ہزارافراد نے اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا۔دسمبر 2014ء میں اطالوی پارلیمان نے ریونیو میں اضافہ کیلئے اپنے شہریوں کے لئے ایک رضاکارانہ پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت وہ بیرون ملک محفوظ اپنا غیرظاہر شدہ سرمایہ ظاہر کرکے اسے قانونی شکل دے سکتے تھے ۔سینٹ میں یہ قانون119ووٹوں سے پاس ہوا 61نے مخالفت کی جبکہ 12سینیٹر غیرحاضر رہے۔حکومت نے اُمید ظاہر کی کہ اس پروگرام کے تحت ریونیو میں5.3ارب یورو کی آمدنی متوقع ہے۔2009ء میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں 80ارب یورو ظاہر کیا گیا جس کے ذریعے 4ارب یورو ریونیو کا حصہ بنا۔برطانیہ میں ایچ ایم ریونیو اینڈ کسٹم (ایچ ایم آر سی )کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے آخر تک 12کروڑ پونڈ رضاکارانہ طور پر ظاہر کئے گئے اور تقریباً 39کروڑ پونڈ اس کے بعد قانون کے دائرے میں لائے گئے ۔2011ء اور2012ء کے درمیان رضاکارانہ سکیم کے تحت 16.7ارب پونڈ ریونیو میں اضافی جمع ہوئے ۔540افراد کے خلاف ٹیکس چوری کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی۔ایچ ایم آر سی کے مطابق 6200برطانوی2کروڑ پونڈ اثاثوں کے مالک ٹیکس نیٹ میں شامل ہیںجو تین سے چار ارب پونڈ سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔آسٹریلیا نے 2007ء اور 2009ء میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی تھی۔ بلجیم کی پارلیمان نے2004ء میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت یکم جون 2003ء سے قبل تک غیر ظاہر شدہ اور غیرٹیکس شدہ اثاثوں کو ظاہرکرکے قانونی شکل دی جا سکتی تھی ۔2004ء میں جرمنی نے ٹیکس نہ دینے والوں کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی ۔یونان نے 30ستمبر 2010ء کے لئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی۔یونان 30ستمبر 2010ء میں ٹیکس ایمنسٹی کے لئے نئے قوانین وضع کئے جس کے تحت قابل ٹیکس اثاثوں کا صرف 55فیصد ادا کرنے کی رعایت دی گئی تھی ۔پرتگال نے 2005ء اور 2010ء میں ٹیکس ایمنسٹی متعارف کرائی ۔ 2007ء میں اس سکیم کے تحت 6ماہ کے اندر 13کروڑ ڈالر قومی خزانے میں جمع ہوئے۔جنوبی افریقہ نے یہ سکیم 2003ء میں متعارف کرائی۔سپین نے2012ء میں یہ سہولت دی۔ انڈونیشیا نے 2015ء میں بیرون ملک اثاثوں کو واپس لانے کے لئے ٹیکس قوانین میں ترمیم کی ۔ اس ترمیم کے بعد ٹیکس ریونیو میں 30فیصد اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش میں کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے متعدد ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائی گئیں۔
تازہ ترین