• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کو چیلنج کا سامنا

اسلام آباد(تجزیہ:فصیح الرحمان خان)عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کو چیلنج کا سامنا ہے۔اندرونی جھگڑوں، آپسی رسہ کشی اور حالیہ آزاد کشمیر انتخابات میں شکست نے عمران خان کو چکرا کر رکھ دیا ہے اور  اگست میں وفاقی حکومت کے خلاف پانامالیکس کے معاملے پر احتجاج کے معاملے پر وہ خود شکوک وشبہات کا شکار ہوگئے ہیں۔حالت کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے احتجاج سے قبل اپنے اندرونی اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے ہفتے اور اتوار کو بنی گالہ میں بند کمرے کے اجلاس ہوئے  اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی اختلافات کو ختم کیا جائےاور اس کےلیے خیبر پختونخوا حکومت کے کئے گئے اہم اقدامات کوواضح کرکے پیش کیا جائے۔تاہم پارٹی کے کچھ رہنمائوں کو ڈر ہے کہ پی ٹی آئی  موجودہ حالات میں حکومت کے خلاف احتجاج  کے لیے ان کی پارٹی تیار نہیں ہے خاص طور پر پی پی پی بھی جب احتجاجی سیاسی کا حصہ نہ بننے کاکہہ چکی ہے۔جب کہ ایم کیو ایم اور اے این پی بھی پی ٹی آئی کی دھرنا پالیسی کی حامی نہیں ، یہاں تک کہ خیبر پختونخوا حکومت میں ان کے ساتھ جماعت اسلامی بھی وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کا ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی، پی ٹی آئی کی احتجاجی پالیسی میں ساتھ دینا چاہتی ہے۔تاہم ، اس حوالے سے پارٹی رہنما  آفتاب شیر پائو نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔خاص طور پر ان کی مرکزی قیادت کو خیبر پختونخوا حکومت کی بری کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئےمشکلات کا سامنا ہے۔عمران خان نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کو  ایک ہفتے کے اندر  وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور دیگر پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات ختم کروانے کی ذمہ داری دی ہے۔کیوں کہ پارٹی باغیوں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ان کی گزارشات  جلدنہیں سنی گئی تو وہ پرویز خٹک کے خلاف مہم چلائیں گے۔تاہم ، عمران خان کے قریبی رہنمائوں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ بذات خود اس معاملے کو حل کرنے کے اقدام کریں۔عمران خان نے اسلام آباد میں پارٹی کےقومی کنونشن میں کہا ہے کہ’’ اگر تم لوگ آپس میں اس طرح لڑتے رہے تو  ان لوگوں کا مقابلہ کون کرے گا، جو پچھلے 30 سالوں سے  اقتدار پر براجمان ہیں، اس لیے میں تمہیںآگاہ کررہا ہوں، اپنے اختلافات کو مزید مت پھیلائو۔مسائل کے حل کے لیےکمیٹی قائم کی جائے گی۔جہاں سب کی باتیں سنی جائیں گی اور اس پر پارٹی فیصلہ دے گی، جسے سب کو ماننا ہوگا اور جو اس سے انکار کرے گا اس کے پاس تین اختیارات ہوں گے۔1۔وہ کسی دوسری جماعت میں چلا جائے، 2۔اپنی علیحدہ جماعت بنالے یا3۔ حکومت کے خلاف تحریک کا نتیجہ آنے تک انتظار کرے۔ سیاسی صورت حال جلد واضح ہوجائےگی اور 2018 میں انتخابات ہوئے تو ہم  پارٹی کے اندر بھی انتخابات کروائیںگے۔‘‘پارٹی کے تمام رہنمائوں پر اس پیغام کا کوئی اچھا تاثر قائم نہیںہوا۔عام تاثر یہی ہے کہ پارٹی پر اعلیٰ طبقے کی اجارہ داری ہے۔پی ٹی آئی قائد نے  پہلے ہی اہم مرکزی عہدوں پر نامزدگیاں کردی ہیں، جن میں نائب چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور سیکریٹری اطلاعات شامل ہیں۔اسلام آباد میں ہونے والے کنو نشن میں عمران خان کے خطاب کے دوران ایک پارٹی ورکر نے کھڑے ہوکر کہا’’تم میرے پیر نہیں ہو، تم میرے قائد ہو، جیسا کہ تم نے کئی بار کہا ہے تم اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کروگے تو میں تم سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔اس پر دیگر پارٹی کارکنوں نے اسے بٹھادیا۔اتوار کو پی ٹی آئی کی پالیسی کونسل کے کورآ رڈینیٹر یاسر فیاض نے ایک ای میل بھیجی جو میڈیا اور پارٹی سرکل میں گردش کرتی رہی، زیادہ تر کا خیال تھا کہ اس میں آزاد کشمیر الیکشن میں شکست کا ذمہ دار جہانگیر ترین کو ٹھہرایا گیا ہے۔بجائے اس متعلق سوچا جاتا ، وہ تادیبی کاروائی سے ڈر رہے تھے۔ای میل کے مطابق، پارٹی ٹکٹ کے لیے متعصب بورڈ تشکیل دیا گیا تھا، جہاں  بیرسٹر سلطان اور سر جہانگیر ذاتی پسند کی بنیاد پر امیدوار کا انتخاب کررہے تھے، بجائے اس کے ، کہ وہ قابلیت پر ان کا انتخاب کرتے۔پی ٹی آئی کا جہانگیر ترین گروپ ہی تمام فیصلے کرتا ہے۔ جب کہ بیرسٹر سلطان میں امیدوار کی قابلیت کو جانچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔جہانگیر ترین نے  امیدواروں کے انتخاب کا معاملہ بیرسٹر سلطان پر چھوڑدیا، جو کہ یہ بھول گئے تھے کہ سرگرم کارکن ہی انتخاب جتوا سکتا ہے۔جب کہ جہانگیر ترین سرگرم کار کنو ں کی آواز نہیں بن سکتے۔سر جہانگیر ، صرف آپ کی وجہ سے ہم نے راولپنڈی/اسلام آباد کی محفوظ سیٹوں کو گنوایا۔ہمارا اسلام آباد میں 700 متحرک کارکنان پر مبنی گروہ ہے۔ہمارے لیے یہ سیٹ جیتنا بہت آسان تھا، جب کہ آ پ نے سب کچھ کرپٹ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر سلطان پر  چھوڑ دیا، جو اپنی سیٹ تک نہ جیت سکے۔لیکن اس کے باوجود  بیرسٹر سلطان بضد ہیں کہ آزاد کشمیر انتخابات میں  انجینئر دھاندلی ہوئی ہے، جب کہ عمران کان شکست تسلیم کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات نعیم الحق نے بذریعہ ٹوئٹر پیغام انتخابات میںووٹوں کی غلط گنتی کا الزام دیتے ہوئے نظر آئے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے 689000ووٹ لیے،  پی ٹی ائی نے 383000 اور پی پی پی نے 353000 ووٹ حاصل کیے۔جب کہ آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق ، مسلم لیگ (ن) نے739185 ووٹ، پی پی پی نے 352682 ووٹ اور پی ٹی آئی نے 210827 ووٹ حاصل کیے۔مریم نواز نے بھی اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنماء جان بوجھ کر  غلط گنتی کررہےہیں۔
تازہ ترین