• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملکر الیکشن کمیشن کے ارکان کے نام طے کر دیئے

اسلام آباد (اشرف ملخم) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پس پردہ ہونے والی بات چیت میں  الیکشن کمیشن کیلئے مسلم لیگ (ن) اپنے نامزد کردہ امیدواروں کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں وزیراعظم نوازشریف، ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی نااہلی کے کیسز زیر التوا ہیں۔ انتخابی اصلا حا ت کے حوالے سے اپنے خطاب میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ حکومتی فہرست اور اپوزیشن کی فہرست میں ہر صوبے میں سے کم از کم ایک نام پر اتفاق پایا جاتا ہے اور یہ لوگ اچھی ساکھ کے حامل ہیں اور پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر شہرت کے حامل ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران پاناما لیکس اور آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن سمیت مختلف ایشوز پر ایک دوسرے پر تنقید کرنے والی دونوں جماعتیں مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے اپنے موقف پر نظرثانی کرکے دانشمندانہ انداز سے اسے تبدیل کریں تاکہ آئندہ پانچ سال کیلئے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پہلے ہی الیکشن کمیشن کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی طرف سے ناموں کو حتمی شکل دیدی تھی لیکن وہ ان کی منظوری چاہتے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کا اعلان پیر کو ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے ذریعے کرایا جائے تاکہ پی ٹی آئی جیسی مخالف پارٹی کو دور رکھا جا سکے۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپنے خطاب میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ حکومتی فہرست اور اپوزیشن کی فہرست میں ہر صوبے میں سے کم از کم ایک نام پر اتفاق پایا جاتا ہے اور یہ لوگ اچھی ساکھ کے حامل ہیں اور پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر شہرت کے حامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار اور خورشید شاہ کے درمیان کئی مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں تاکہ بظاہر دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کیا جا سکے لیکن ان پر سیاسی دانشمندی اس وقت نازل ہوئی جب دونوں کو ان جماعتوں کا احساس ہوا جن کا مقابلہ انہیں آئندہ انتخابات کے دوران کرنا پڑ سکتا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ اب پارلیمانی کمیٹی میں حل ہونا ہے اور فیصلہ اکثریتی ارکان ہی کریں گے لہٰذا مسلم لیگ (ن) اس مقابلے میں کامیاب ہوگی کیونکہ کمیٹی کے 12 میں سے پانچ ارکان نواز لیگ کے، دو پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سندھ سے تعلق رکھنے والی سابق بیوروکریٹ کو نامزد کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔ یہ خاتون اب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ تاہم، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے قانون کی شق نمبر 5؍ کے تحت کمیشن کا ممبر ہونے کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے عہدے پر مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ حکومت نے الیکشن کمیشن کیلئے جسٹس رانا بھگوان داس کے نام کو حتمی شکل دی تھی لیکن اسی شق کی وجہ سے وہ بھی الیکشن کمیشن کا ممبر نہیں بن سکے تھے۔ یہ شق ایک ترمیم کے ذریعے 2000ء کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن ایکٹ میں شامل کی گئی تھی۔ جسٹس رانا بھگوان داس کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر یہ غلط ہوگا کہ صرف ایک شخص کیلئے قانون میں ترمیم کر دی جائے۔ اب، ایک سیاسی جماعت نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے رکن امجد نذیر سے رابطہ کرکے انہیں الیکشن کمیشن کیلئے خیبرپختونخوا سے نامزد کرنے کی پیشکش کی تاہم انہوں نے اسی شق کی وجہ سے انکار کردیا۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ سندھ کی جانب سے ایک اور خاتون نرگس گھلّوُ کے نام پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ وہ گریڈ 22 ؍ کی اچھی ساکھ کی حامل افسر ہیں اور فی الوقت اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے چیئرپرسن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ سیکریٹری کابینہ اور صدر مملکت کے سیکریٹریٹ میں ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکی ہیں۔ اسی طرح پی پی اور نواز لیگ کی جانب سے ایک اور نام پر اتفاق کیا گیا ہے وہ بلوچستان کے شکیل بلوچ ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں عدلیہ سے استعفیٰ دیا ہے۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی آقائوں کی جانب سے اشارہ ملنے پر انہوں نے استعفیٰ دیا تاکہ انہیں الیکشن کمیشن آف پا کستا ن کیلئے نامزد کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کیلئے 12؍ رکنی کمیٹی میں نواز لیگ کے پانچ ار کا ن ہیں جن میں پرویز رشید، زاہد حامد، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن، جنید اقبال چوہدری اور ارشد لغاری شامل ہیں۔ کبیر خان پختونخوا عوامی ملی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں، دائود اچکزئی عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں (یہ دونوں جماعتیں مرکز اور بلوچستان میں نواز لیگ کی اتحادی ہیں)۔ پیپلز پارٹی کے تین ووٹ ہیں جن میں نواب یوسف ٹالپُر، شازیہ مری اور اسلام الدین شیخ شامل ہیں۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا ایک ایک ووٹ ہے۔ اس طرح سے نواز لیگ کے پاس اتحادیوں کے ساتھ سات ووٹ ہوجائیں گے جو فیصلہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے متحد ہونے کے بعد بھی حکومت اپنا فیصلہ مسلط کر سکتی ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ماضی کی طرح پنجاب اور سندھ سے اپنے نامزد کردہ افراد کو منتخب کریں گی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نواز لیگ کوشش کر رہی ہے کہ سندھ سے اس کے نامزد کردہ شخص پر پیپلز پارٹی متفق ہو جا ئے ۔ اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بالکل ویسے ہی تشکیل دیا جائے گا جیسا یہ 2013ء کے الیکشن کے وقت تھا۔
تازہ ترین