• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں غیرت کے نام پر کی جانے والی قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا کسی مصالحت یا عذر کی بنا پر بچ نکلنے کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک بڑھتی ہوئی تشویش کے باعث حکومت اس حوالے سے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ترامیم کے ذریعے اس نوع کے قتل کو فساد فی الارض قرار دے کر ایک نیا قانون بنانے کی تیاری کررہی ہے جس کے تحت اس جرم میں ملوث افراد کو25سال قید کی سزا دی جاسکے گی اور اس پر عیدین اور دیگر تہواروں پر قیدیوں کو دی جانے والی تخفیف کا بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ جنسی زیادتی کے قوانین میں 7ترامیم کرنے کی تجویز ہے جن کی روشنی میں متاثرہ خاتون کا24گھنٹے میں طبی معائنہ ہوگا، شواہد خراب کرنے پر حکام کوتین سال کی قید ہوگی کیونکہ عام طور پولیس ایسے مقدمات کی فوری ایف آئی آر درج کرنے سے گریز پائی اختیارکرتی ہے اورعدالت ایسے مقدمات کا چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔ان مقدمات کی ساری کارروائی ان کیمرہ ہوگی ۔ وطن عزیز پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے جرائممیں اضافہ ہورہا ہے اور انفرادی طور پر کی جانے والی اس طرح کی وارداتوں کے علاوہ برادریوں اور قبائلی جرگوں کے ذریعے قتل ناحق کا یہ سلسلہ فروغ پارہا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اکیسویں صدی کے جدید ترین دو ر میں بھی قرون وسطیٰ کے تاریک عہد کی طرف واپس لوٹ رہا ہے ، غیرت کے نام پر کئے جانے والے ان قتلوں کے اصل محرکات اکثر اوقات کچھ اور ہوتے ہیں لیکن انہیں قتل غیرت کا نام دے کر چھپایا جاتا ہے۔ حکومت نے انسانی حقوق کی اس پامالی کو روکنے کے لئے جو نیا قانون بنانے کا ارادہ کیا ہے وہ وقت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے جس کو ماہرین قانون ، سماجی دانشوروں اور علمائے کرام کی مشاورت سے جلد از جلد آخری شکل دی جانی چاہئے تاکہ اس قبیح رسم کا معاشرے سے مکمل خاتمہ کیا جاسکےاور پاکستان عالمی برادری میں اپنا سر فخر سے بلند کرنے کے قابل ہوسکے۔
تازہ ترین