• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں ٹیکسٹائل صنعت کو درپیش چیلنجز، ایکسپورٹس میں کمی اور بین الاقوامی منڈی میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی مقابلاتی سکت کم ہونے پر حکومت کی توجہ دلائی تھی۔ اس وقت ہماری معیشت کا تقریباً 58% حصہ خدمات کے شعبے کا ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ 21%اور زراعت کا 21% ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت میں سب سے زیادہ ریونیو اور ملازمتیں فراہم کرنے والا مینوفیکچرنگ سیکٹر سکڑ رہا ہے جبکہ سروس سیکٹر تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اس سال زراعت کے شعبے میں بھی منفی گروتھ دیکھی گئی اور کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 9.5 ملین بیلز رہی جبکہ بھارت نے جدید بیجوں کے استعمال سے اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھاکر 33 ملین بیلز سالانہ کرلی ہے اور آج بھارت دنیا میں کاٹن ایکسپورٹ کرنے والا ایک اہم ملک ہے۔ یہ اشارے ملک کے پالیسی میکرز کیلئے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 30سے زیادہ انسپکشن ایجنسیوں، ورکرز کے جارحانہ رویئے، ایکسپورٹ پر ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھرمار، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ریفنڈ کی طویل عرصے سے عدم ادائیگی، پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے سے ایکسپورٹس میں کمی جو اس سال 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21 ارب ڈالر تک گرگئی ہے، انرجی کا بحران، خطے میں بجلی اور گیس کے مہنگے نرخ، امن و امان کی موجودہ صورتحال اور صنعتوں کے مالی نقصانات وہ عوامل ہیں جس نے مقامی سرمایہ کاروں اور ان کی نئی نسل جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم لے کر وطن واپس لوٹے ہیں، کو ٹیکسٹائل صنعتوں میں سرمایہ کاری کے بجائے ریٹیل بزنس کی طرف راغب کیا ہے اور بے شمار ٹیکسٹائل ٹائیکون ونڈ انرجی، رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ، اسٹاک مارکیٹ، شاپنگ مالز اور ریٹیل اسٹورز جیسے بزنس میں نئی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ میرا نئی نسل کے نوجوانوں سے اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ روایتی بزنس میں دلچسپی رکھنے کے بجائے محفوظ سرمایہ کاری اور زیادہ منافع پر یقین رکھتے ہیں۔
ہمارے ٹیکسٹائل سیکٹر کا ملکی ایکسپورٹ میں 53% حصہ ہے۔ یہ ہماری معیشت کا سب سے اہم سیکٹر ہے جو مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تقریباً 40% ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 8% سے زیادہ ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی تمام کاٹن ٹیکسٹائل سیکٹر کا خام مال ہے جس سے ہم دنیا کے نامور ٹیکسٹائل برانڈز بناکر ایکسپورٹ کرتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اپنے مقابلاتی حریفوں بنگلہ دیش، بھارت اور چین سے اپنی مقابلاتی سکت کھورہا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں بے شمار ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکے ہیں اور باقی ٹیکسٹائل ملز بمشکل 50% پیداواری صلاحیت پر کام کررہے ہیں۔ ٹیکسٹائل صنعت کی گرتی ہوئی ایکسپورٹس پر میں نے وفاقی کابینہ کے وزراء اور وزیراعظم کو وزیراعظم ہائوس میں ایک طویل پریذنٹیشن بھی دی تھی جس میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں کمی کے درج بالا عوامل بتائے تھے۔ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کو فروغ دینے کیلئے ملک میں دو پانچ سالہ ٹیکسٹائل پالیسیوں کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے وزارت خزانہ سے وقت پر فنڈز جاری نہ کئے جانے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے۔ ہمارے حریف بنگلہ دیش اور بھارت میں ایکسپورٹرز اور ٹیکسٹائل کے وزیر کی ہر ماہ میٹنگز ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے ٹیکسٹائل کا کوئی وفاقی وزیر ہی نہیں جس سے ملکی معیشت کے سب سے بڑے سیکٹر ٹیکسٹائل کیلئے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین سے 2014ء سے جی ایس پی پلس کے تحت EU سے پاکستان کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی مراعات ملنے کے باوجود ہماری یورپی یونین کی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ فیڈریشن کی سفارشات اور وزیراعظم کی ہدایت پر موجودہ بجٹ میں پانچوں ایکسپورٹ سیکٹرز جس میں ٹیکسٹائل بھی شامل ہے، پر 3% سیلز ٹیکس ہٹالیا گیا ہے لیکن اب بھی ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس پر 8% سے 9% ان ڈائریکٹ ٹیکسز وصول کئے جارہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ایکسپورٹ پر کوئی ٹیکس نہیں ہے کیونکہ ایکسپورٹ زیرو ریٹڈ ہوتی ہیں۔
پاکستان چین کو کاٹن یارن سپلائی کرنے والا دنیا میں سب سے بڑا ملک تھا لیکن بھارت اور ویت نام نے نہایت کامیابی سے ہماری چین کی مارکیٹ کا شیئر چھین لیا۔ اپٹما کے سابق چیئرمین گوہر اعجاز نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور گرتی ہوئی ایکسپورٹس کی وجہ سے پنجاب میں بے شمار ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکے ہیں جس سے بینکوں کے نان پرفارمنگ قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی میں حال ہی میں ایک ڈینم فیکٹری میں مزدوروں نے بونس نہ ملنے پر فیکٹری کا گھیرائو کرکے شدید توڑ پھوڑ اور فیکٹری منیجر کی گاڑی سمیت کئی گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ اس قسم کے واقعات فیکٹری مالکان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ کیا صنعتوں میں سرمایہ کاری ان کیلئے محفوظ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئی نسل صنعتکاری کے بجائے متبادل انرجی، تعمیرات، کیپٹل مارکیٹ، شاپنگ مالز اور ریٹیل اسٹورز جیسے بزنس میں محفوظ سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہی ہے جس کا ثبوت ہمیں ملکی معیشت میں سروس سیکٹر کے فروغ اور زراعت و مینوفیکچرنگ سیکٹرز کے سکڑنے سے ملتا ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ سرمایہ کار کو وقت کے ساتھ اپنے بزنس کو متنوع کرکے نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہئے لیکن زراعت اور مینوفیکچرنگ سیکٹر ملک میں سب سے زیادہ ملازمتیں، ایکسپورٹس اور ریونیو دینے والے شعبے ہیں۔حکومت کو نئی ملازمتیں پیدا کرنے والے ان شعبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا نہیں تو پاکستان میں بیروزگاری کا سیلاب امڈ آئے گا جو ملک میں غربت میں اضافہ اور امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور دنیا میں کاٹن پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہم نے ٹیکسٹائل کے شعبے میں نہایت مہارت حاصل کی ہے، ہمارے پاس نئی ٹیکنالوجی کی حامل مشینیں اور ہنرمند لیبر دستیاب ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں بنائے جاتے ہیں لیکن یہ صنعت غلط پالیسیوں کی وجہ سے غیر مقابلاتی ہوتی جارہی ہے۔ ملک میں بے شمار ٹیکسٹائل ملز فروخت کیلئے دستیاب ہیں جبکہ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں وجہ سے صنعتکاروں نے بڑے بڑے ٹیکسٹائل یونٹس میں سرمایہ کاری کی ہے اور آج بھارت سے ہمیں کاٹن یارن اور تولئے کی صنعت میں سخت مقابلے کا سامنا ہے جو پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں اپنی ٹیکسٹائل صنعت کی برتری کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ میرا حکومت اور پالیسی میکرز کو مشورہ ہے کہ وہ صنعت و زراعت کو غیر مقابلاتی بنانے والے عوامل کو ہنگامی بنیادوں پر دور کریں تاکہ پرائیویٹ سیکٹر کا ملکی معیشت میں ملازمتیںپیدا کرنے والے صنعتی اور زرعی سیکٹرز میں سرمایہ کاری کا رجحان دوبارہ پیدا ہوسکے نہیں تو ہمارا ملک مستقبل میں ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بن جائے گا۔
تازہ ترین