• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر عمران خان کی جماعت کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں صرف دو سیٹیں ملی ہیں تو اس پر اگر کوئی پھبتی کسنا چاہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس سے تین گنا زیادہ سیٹیں تو چنگ چی رکشے میں ہوتی ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق صاحب کے ایک بیان کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں سویپ کرنے والی جماعت کو اِترانا نہیں چاہئے کیونکہ اس کی مخالف اپوزیشن جماعتوں کے ووٹ اس سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا حکومت بنانے کا حق مسلم لیگ ن کا نہیں، اپوزیشن جماعتوں کا ہے۔ اس پر بھی یار لوگوں نے بہت ’’افسوسناک‘‘ قسم کے ’’مخول‘‘ کئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحانات میں اوّل آنے والا اوّل نہیں ہوتا بلکہ اس سے کم درجہ نمبر حاصل کرنے والوں کے نمبر جمع کرنا چاہئیں، وہ نمبر اوّل آنے والے کے نمبروں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ چنانچہ اوّل پوزیشن کا حق دار اوّل آنے والا نہیں بلکہ دوسری، تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والے ذہین طالبعلم ہیں۔ ایک ستم ظریف نے تو یہ لطیفہ بھی گھڑ کے ٹویٹ کر دیا کہ عمران خان نے اپنے کسی دوست سے کہا کہ ان کی تیسری شادی کے لئے کوئی 45سالہ خاتون تلاش کی جائے۔ دوست نے کہا ’’45سالہ خاتون دستیاب نہ ہو تو پندرہ پندرہ سالہ تین خواتین سے کام چل جائے گا‘‘ یہ لطیفہ اگرچہ بہت پرانا ہے، اتنا پرانا کہ بقول منیر نیازی اس لطیفے کی مونچھیں بھی سفید ہو چکی ہیں مگر اس کا یہ سیاسی استعمال پہلی دفعہ ہوا ہے۔ سو ان دنوں یار لوگ اس طرح کی باتوں سے پی ٹی آئی کے زخموں پہ نمک چھڑکنے میں لگے ہوئے ہیں جو اچھی بات نہیں۔ اور میری اس بات کی تصدیق مرے کو مارے شاہ مدار والا محاورہ کرتا ہے۔
ویسے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی شکست تو نہیں البتہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی قیادت پر ایک بار پھر اس درجہ کے اعتماد سے جو تکلیف میڈیا کے میرے تین چار دوستوں کو ہوئی ہو گی وہ اس تکلیف سے کئی گنا زیادہ ہے جو عمران خان کو اپنی جماعت کی عبرتناک شکست سے پہنچی ہو گی۔ میرے یہ دوست نواز شریف پر بھیانک الزام لگاتے لگاتے خود ہی یقین کر بیٹھے تھے کہ لوگ ان پر یقین کر بیٹھے ہیں۔ وہ نواز شریف کا امیج آصف زرداری ایسا بنانے کی مکروہ کوششوں میں شب و روز مشغول تھے۔ مگر عوام نے جہاں بہت بری طرح عمران خان کو مسترد کیا اتنے ہی برے طریقے سے آصف زرداری کو بھی رد کر کے اور اپنی ساری محبتیں نواز شریف پر نچھاور کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا، انہیں ان الزامات سے بری کر دیا جو میرے یہ میڈیا دوست اپنی عدالتوں میں ان پر لگاتے اور پھر خود ہی فیصلہ بھی سنا دیتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں ظریف مرحوم کی ایک فلم دیکھی تھی جس میں وہ گائوں کے لوگوں کے ’’مقدمات‘‘ کے فیصلے کرتا تھا۔ یہ ’’جج صاحب‘‘ حقہ سامنے رکھے فٹافٹ فیصلے سنائے چلے جاتے تھے۔ ان کی اس عدالت کو ’’مامے (ماموں) دی عدالت‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہی ’’عدالتیں‘‘ ایک عرصے سے ہمارے بعض ٹی وی چینلز پر سجائی جا رہی ہیں۔ ان میں میرے میڈیا پرسن دوست مدعی بھی خود ہوتے ہیں، وکیل بھی خود، جج بھی خود اور اس کے بعد جلاد کا کام بھی یہ خود ہی کرتے ہیں مگر آزاد کشمیر کے انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہمارے لوگ کانوں کے کچے نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شریف خاندان پاکستان سے عشق کرنے والا خاندان ہے، انہوں نے پاکستان کا خزانہ بھرا ہے لوٹا نہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت وہ بین الاقوامی سروے ہیں جن میں پاکستان کی معیشت کا موازنہ ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت سے کیا گیا ہے اور اس کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو ایشیا کی سب سے مضبوط اسٹاک مارکیٹ قرار دیا ہے۔ ان دوستوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اب اسلام آباد نہیں آئیں گے۔ وہ اپنی علالت کے باوجود اسلام آباد آئے، سیکورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کیا اور پھر کشمیری عوام کو مبارکباد کہنے خود مظفر آباد چلے گئے جہاں ان کے استقبال کے لئے تاحد نظر عوام ہی عوام تھے۔ اتنا پرجوش مجمع کم ہی دیکھنے کو آتا ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں کامیابی، بلدیاتی انتخابات میں کامیابی، گلگت بلتستان میں کامیابی اور اب آزاد کشمیر کے انتخابات میں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کے ووٹ کے بعد بھی کچھ کہنے کی گنجائش ہے؟ ہاں بہت گنجائش ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولتے جائو، ایک نہ ایک دن لوگ اس پر یقین کر ہی لیں گے۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پی پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری خود آزاد کشمیر گئے اور جلسوں میں لوگوں سے کرپشن کے خلاف اپنی پارٹی یعنی آصف علی زرداری اور ان کے ہم نوائوں کے لئے ووٹ مانگے۔
ہے نا ’’ہاسے‘‘ والی بات! اسی طرح پی ٹی آئی کے قائد (اور خود ہی عوام بھی) عمران خان بنفس نفیس انتخابی مہم چلاتے رہے اس کے برعکس مسلم لیگ ن کو اپنے عوام کی محبتوں پہ اتنا اعتماد تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف تو کجا، اسحاق ڈار، چوہدری نثار علی خان، خواجہ آصف اور دیگر قائدین بھی اپنے اپنے دفاتر میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ یہ ساری انتخابی مہم صرف پرویز رشید، چوہدری برجیس طاہر اور آصف کرمانی نے چلائی اور امیدواروں سے جو 65لاکھ روپے بطور فیس لئے گئے تھے ان میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا گیا بلکہ انتخابی مہم کیلئے میاں نواز شریف نے پارٹی فنڈ میں سے 35لاکھ مزید دیئے تھے وہ بھی خرچ نہیں ہوئے۔ یوں آزاد کشمیر کے عوام نے اپنی پارٹی کے ایک کروڑ بھی بچائے اور پارٹی کو سرخرو بھی کر دیا۔ ایسا سرخرو جس کی مثالیں کم کم ہی ہیں۔
ایسی بہت سی باتیں کہنے کو تھیں، مگر کالم کا ’’بھی‘‘ ایک وقت مقرر ہے، سو اپنی بات یہیں ختم کر رہا ہوں۔ امید ہے میرے اس تھوڑے لکھے کو ’’بوتا‘‘ سمجھا جائے گا۔
تازہ ترین