• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی ناکام بغاوت کے بعد شروع ہونیوالا گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ روز بروزبڑھتا جارہا ہے جسے مغربی میڈیا اور چند یورپی ممالک صدرایردوان کے آمرانہ اقدامات قراردے رہے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ایردوان پر برس رہی ہیں، یورپی یونین کی طرف سے سزائے موت کی بحالی کی صورت میں ترکی کورکنیت نہ دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جرمنی کی طرف سے ترکی میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد بنیادی انسانی حقوق کی معطلی پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ یہ وہی انسانی حقوق کی تنظیمیں ،یورپی یونین اور مغربی ممالک ہیں جن کی طرف سے ترکی میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت پر نہ تو اس انداز میں کف افسوس ملا گیا تھا اورنہ ہی ایردوان کیساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا، عالمی طاقتوں کے اسی دوغلے پن کا شائبہ اس وقت بھی حقیقت کا روپ دھارتا نظر آتا ہے جب بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر انہیں سانپ سونگھ جاتاہے، یہ عالمی طاقتیں اس وقت بھی گونگی بہری ہو جاتی ہیں جب بنگلہ دیش کی حکومت نصف صدی قبل کے حادثے کو جواز بنا کر من گھڑت الزامات کے تحت معمر شہریوں کو پھانسیاں دے رہی ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں پر اس وقت بھی پردہ پڑ جاتا ہے جب اسرائیلی فوجی معصوم فلسطینی بچوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے، بے شک ترکی کے صدر ایردوان کی شہرت بھی متنازع ہے۔ ان پر بد عنوانی ، اقربا پروری اور مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے متعدد الزامات ہیں لیکن انہوں نے جس طرزحکمرانی سے ترکی کی پہچان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اسے ترک عوام کی اکثریت نے سراہا ہے،ذکر ہو رہا تھا ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد کئے جانے والے اقدامات کا توگزشتہ ایک ہفتے میں اب تک 103جنرلز اور ایڈمرلز سمیت محکمہ تعلیم کے 15ہزار، وزارت خزانہ کے 15 سو سے زائد، وزارت داخلہ کے 8ہزار 777، وزیر اعظم آفس کے 257، وزارت مذہبی امور کے 492ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے، 2ہزار 745ججز سمیت 38صوبائی گورنروں اور 47ضلعی گورنروں کو بھی گھربھیج دیا گیا ہے، 24 ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنس معطل کردئیے گئے ، مختلف یونیورسٹیوں کے 1ہزار 5سو 77ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم جاری کیا گیا۔ مجموعی طور پر50ہزار سے زائد فوجیوں، پولیس اہلکاروں، ججوں اور دیگر سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ 6ہزار فوجی زیرحراست ہیں۔ قومی خفیہ ادارے کے 100ایجنٹوں کو بغاوت کی اطلاع فراہم نہ کرنے اور فرائض میں غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔ ایردوان کے صدارتی محل کی حفاظت پر مامور 300 گارڈز کے بھی وارنٹ جاری کئے گئے ہیں۔ ترک حکام نے فلائٹ رسک کے باعث دس ہزار سے زیادہ پاسپورٹ بھی منسوخ کر دئیے ہیں۔ 600 اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ترکی کے سفیر صادق بابر کا کہنا ہے کہ گرفتارکئے گئےتمام باغیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمے چلائے جائیں گے جبکہ مارے گئے باغیوں کیلئے قبرستان بھی الگ بنایا جائے گا ۔ صادق بابر نےبرملا کہا کہ امریکی ائیربیس فوجی بغاوت میں مکمل طور پر ملوث تھا،انہوں نے پاکستان میں فتح گولن کی تنظیم کے زیر انتظام چلائے جانیوالے اسکولوں اور دیگر اداروں کے خلاف حکومت پاکستان سے کارروائی کا بھی مطالبہ کیا ہے،ترکی میں کامیاب بغاوت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جو اقدامات آج ایردوان حکومت کر رہی ہےبعین اسی طرز کی کارروائیاں مارشل لا لگانے والے کنعان ایورن نے1980ءمیں کی تھیں،اس وقت 6 لاکھ 50 ہزار افراد کو گرفتار کیا تھا، 16لاکھ 30ہزار افراد کو بلیک لسٹ کیاگیا، 2لاکھ 50ہزار افراد پر مقدمات قائم کئے گئے، 14ہزار افراد سے ترکی کی شہریت واپس لی گئی ۔کنعان ایورن کی آمرانہ حکومت کے خاتمے اور اسے کٹہرے میں لانیکا سہرا بھی ایردوان کو ہی جاتا ہے۔ ترک عدالت انصاف نے کنعان کو عمر قید کی سزا سنائی اوردوران قید ہی ان کی موت واقع ہوگئی تھی ، کل تک امریکہ کی آنکھ کا تارا رہنے والے ایردوان کی بعض پالیسیاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اب کھٹک رہی ہیں کیوں کہ ترکی کو معاشی طورپرمضبوط کرنے کے بعد اب ان کی نظریں مختلف عالمی اتحادوں پر ہیں جن میں وہ ترکی کیلئے اہم کردارحاصل کرنے کے خواہاں ہیں، جہاں ایک طرف ان کی اسرائیل کے ساتھ چھیڑ چھاڑجاری ہے اور ان کا فلسطین کیلئے نرم گوشہ بہت سے مغربی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتا وہیں بنگلہ دیش میں مذہبی رہنمائوں کی پھانسیوں پربطوراحتجاج سفیر واپس بلا نے کے اقدام کوعالم اسلام میں سراہا گیا ہے ،سعودی عرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں ہلکی سی دراڑ موجود ہے کیوں کہ ترکوں کے ذہن سے یہ بات محو نہیں ہوتی کہ وہ کبھی سرزمین عرب کے حکمران تھے،روس اور ترکی کے مابین گزشتہ مہینوں میں پیدا ہونیوالے تنازعات کے حل کیلئے ہونیوالی بات چیت اورسفارتکاری کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے کافی قریب آچکے ہیں۔ ترک وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ فتح گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کے مطالبے پر مشتمل چار فائلیں امریکہ کو بھیج دی گئی ہیں تاہم امریکی صدر باراک اوباما امریکہ پر الزام تراشی کو مسترد کر رہے ہیں جس سے مستقبل قریب میں امریکہ ترکی تعلقات مزید خراب ہونے کے امکانات ہیں، ترک حکومت کے حالیہ اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں یورپی یونین ، مغربی قوتوں بالخصوص امریکہ اورنیٹوفورسز میں ترکی کی اہمیت کم ہو جائے گی جبکہ سزائے موت کی بحالی سے وہ یورپی یونین سے مکمل طور پر کٹ جائیگا، امریکہ کی ناراضی مول لینے ، یورپی یونین سے کٹ جانے اور نیٹو کی ممبر شپ سے نکلنے کے بعد ترکی کو کس طرف دیکھنا ہے،ایردوان جانتے ہیں کہ پھر ترکی کے پاس واحد راستہ روس، چین اور جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا اور اپنا مستقبل یہاں تلاش کرنا ہی بچ جاتا ہے، روس کا طیارہ مار گرائے جانے کے بعد ہونیوالی سفارتکاری کے نتیجے میں روس اور ترکی کے درمیان تعلقات کافی حد تک بہترہوچکے ہیں جس کا ثبوت آنے والے دنوں میں شام میں ترکی کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ ترکی ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو وسعت دے گا جبکہ افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ترکی پاکستان کے ساتھ پہلے ہی مکمل رابطے میں ہے،یہ تعلقات اب مختلف شعبوں میں شراکت داری میں تبدیل ہورہے ہیں۔
ادھریورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاکے بعد ترک سرمایہ کاروں کیلئے یورپی یونین میں زیادہ دلچسپی اسلئے بھی نہیں ہے کیونکہ یونین کے بکھرنے یا چند اور ممالک کے اس سے علیحدہ ہونے کی صورت میں بدترین مالی بحران ترکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ترکی میں ناکام بغاوت سے جنوبی ایشیائی خطے کی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں تاہم اگر ایردوان حالیہ ناکام بغاوت سے موثر طور پر نمٹنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو ترکی کا گزشتہ چار دہائیوں پر محیط ترقی کا سفر بھی رک جائے گا۔ ترک صدر کو باغی عناصر اور ان کے حامیوں کو سبق سکھانے کی آڑ میں اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ پاکستان جیسےجمہوری ممالک اور جمہوری رویوں والی قوموں کیلئے بھی ترکوں کو سنبھلنے میں مدد فراہم کرکے جمہوریت سے اپنی بھرپور وابستگی ظاہر کرنے کا سنہری موقع ہے کیونکہ تاریخ بڑی بے رحم ہے جس کے نشانے پہ آج ترکی ہے تو کل کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین