• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے طویل غور و خوض اور معروضی حالات کا جائزہ لینے کے بعد سندھ میں وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کرکے وزارت اعلیٰ کے منصب پر نسبتاً کسی کم عمر سیاستدان کو فائز کرنے کا فیصلہ صوبے میں گورننس کو مزید بہتر بنانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششوں کی رفتار تیز کرنے کی مثبت اور وسیع تر سوچ کا حامل ہے۔ دبئی میں پارٹی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں ہونے والے مشاورتی اجلاس، جس میں دوسرے اہم رہنمائوں کے علاوہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ بھی موجود تھے، کے دوران صوبائی کابینہ میں بھی ردو بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں کراچی میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے علاوہ صوبے میں گڈ گورننس اور دوسرے معاملات بھی زیر غور آئے۔ سندھ کابینہ کے وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور طے کیا گیا کہ اچھی کارکردگی نہ دکھانے والوں کی جگہ نئے وزرا کا تقرر کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری اسی ہفتے کراچی پہنچ کر پارٹی کی صوبائی قیادت اور ارکان سندھ اسمبلی سے ملاقاتیں اور مشاورت کر کے نئے وزیر اعلیٰ اور وزرا کے ناموں کو حتمی شکل دیں گے موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ دو بار پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ایک دیانتدار اور معاملہ فہم سیاستدان کے طور پر وہ سندھ ہی نہیں پورے ملک میں اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن بعض حلقوں کے نزدیک 83 سال کی عمر میں وہ اپنے منصب کی بھاری ذمہ داریاں اٹھانے کے حوالے سے ماضی کی طرح جسمانی طور پر زیادہ فعال نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کی موجودہ مدت کے دوران ان کی کارکردگی ایسی نہیں رہی جسے عوام میں گزشتہ مدتوں کی طرح سراہا گیا ہو۔ ان کے جانشین کے طور پر آغا سراج درانی، نثار کھوڑو اور منظور وسان بھی مضبوط امیدوار بتائے جاتے ہیں لیکن سندھ میں اہل سادات کی غیر معمولی مقبولیت اور پھر پارٹی کے شاہ گروپ کے دبائو کی وجہ سے غالب امکان یہی ہے اور صوبائی مشیر مولا بخش چانڈیو کا بھی یہی کہنا ہےکہ اگلا وزیر اعلیٰ بھی کوئی شاہ ہی ہوگا، اس حوالے سے سینئر وزیر سید مراد علی شاہ کا نام سرفہرست ہے۔ وہ سابق وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے صاحبزادے ہیں اور کینیڈا کی شہریت ترک کر کے نومبر 2014کے ایک ضمنی انتخاب میں جام شورو سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سندھ کے موجودہ حالات میں امن و امان اور تعمیر و ترقی کے چیلنجز کا وہ زیادہ مستعدی سے مقابلہ کر سکیں گے۔ ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ تبدیلی صوبے کی بہتری کیلئے ہونی چاہئے۔ لا اینڈ آرڈر کے علاوہ سندھ میں صحت، تعلیم، غربت اور پسماندگی کے مسائل ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر کرنے اور اس مقصد کیلئے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی قیادت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی منظوری دے دی ہے مگر اس کا دائرہ کار کراچی ڈویژن تک محدود کردیا ہے۔ رینجرز کا موقف ہے کہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کراچی میں کارروائی کے دوران قانون سے بچنے کیلئے اندرون سندھ بھاگ جاتے ہیں جبکہ حکومت رینجرز کو وہاں کارروائی کی اجازت نہیں دے رہی۔ یہ مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ اس کا بھی کوئی قابل عمل حل نکالنا چاہیئے، نئی صوبائی حکومت کو اپنی گورننس بہتر اور موثر بنانے پر توجہ دینا ہو گی۔ سندھ کے عوام نے 1970 سے ہمیشہ پیپلزپارٹی پر اعتماد کیا ہے اور ہر مشکل میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ پارٹی کا اقتدار انہی عوام کا مرہون منت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پارٹی بھی حقیقی معنوں میں ان کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے ہر معاملے میں میرٹ کو ملحوظ رکھے اور تمام علاقوں میں تعمیر وترقی کے یکساں کام کرے۔ ان ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے جو فی الوقت زبان زد خاص و عام ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آئندہ انتخابات میں ہار یا جیت کا فیصلہ حکومت کی کارکردگی پر ہوگا بلدیاتی اداروں کو فعال نہ بنا کر حکومت نے پہلے ہی عوام کی ناراضی مول لے رکھی ہے۔ اقتدار کی جو مدت باقی رہ گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر ان تمام غلطیوں کا ازالہ کیا جائے جو اب تک سرزد ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔
تازہ ترین