• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
50 کی دہائی میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس نے تہلکہ مچا دیا۔ فلم کا نام تھا ’’سات لاکھ‘‘ جو غالباً سیف الدین سیف صاحب نے لکھی تھی اور جس کے گیت آج بھی کلیوں کی طرح ترو و تازہ ، خوشبودار، مسحور کن اور لازوال ہیں مثلاً ’’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے تو چھٹی لے کے آ جا بالما‘‘ سلیم رضا مرحوم کی پگھلتے ہوئے شیشے جیسی آواز میں ’’قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے‘‘ اور وہ مخمور گیت ’’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں‘‘۔ یہ فلم ایسے چہروں سے سجی تھی جیسے چاند چہرہ ستارہ آنکھیں چہرے پھر کبھی دکھائی نہ دیئے۔ سنتوش کمار صبیحہ لیڈنگ رول میں تھے، طالش مرحوم نے عادی شرابی کا رول امر کردیا، آصف جاہ نے وکیل کے رول میں کامیڈی کا نیا باب لکھ دیا۔ نیئر سلطانہ جیسی پیدائشی فنکارہ نے اپنےثانوی کردار میں جان ڈال دی اور ایکسٹرا نیلو راتوں رات سپرسٹار بن گئی کیونکہ ’’آئے موسم رنگیلے سہانے‘‘ جیسا ’’ضرب المثل‘‘ بن جانے والاگیت نیلو پر ہی پکچرائز ہوا تھا۔ ولن کے رول میں جو کوئی بھی تھا خوب تھا، نام یاد نہیں آ رہا لیکن وہ چہرہ اور مینرازم آج بھی میرے سامنے ہے۔یہ فلم میں نےریلیز کے کافی سالوں بعد تب دیکھی جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس لئے تفصیلات تو یاد نہیں لیکن اس کی بے حد دلچسپ کہانی کا خلاصہ نقش ہے۔ ہیروئین کو مردوں سے نفرت ہے اس لئے اس کا والد مرنے سے پہلے وصیت چھوڑ جاتا ہے کہ اگر بیٹی شادی کرکے اپنا گھر نہیں بساتی تو اسے ’’سات لاکھ‘‘ کی شہری جائیداد، ’’سات لاکھ‘‘ کی زرعی جائیداد، ’’سات لاکھ‘‘ روپیہ نقد وغیرہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ زندہ رہنےکے لئے مناسب سے گزارہ الائونس کے علاوہ بیٹی کا کسی شے پر کوئی حق نہ ہوگا۔ باپ کی موت کے بعد بیٹی وکیل کو مجبور کرکے اس منصوبہ پر قائل کرلیتی ہے کہ وہ تپ دق کے مرتے ہوئے کسی مریض سے شادی رچا کر وصیت کی شرط پوری کرکے جائیداد حاصل کرلے گی لیکن بوجوہ منصوبہ سرےنہیں چڑھتا کہ ایک رات اچانک ہیرو پولیس سے بچنے کے لئے ہیروئین کے گھر میں پناہ مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ کسی کی عزت بچاتے ہوئے اس سے قتل ہو گیاہے۔ پولیس پیچھے ہے، مجھے بچا لیجئے۔ ہیروئین کچھ سوچ کر اسےآفر کرتی ہے کہ اگر مجھ سےشادی کرلو تو پناہ مل سکتی ہے۔ ہیرو جان بچانے کے لئے حامی بھر لیتاہے۔ ہیروئین تعاقب میں آئی پولیس کو ٹال دیتی ہے اور وکیل کو فون کرکے کہتی ہے کہ ’’ابھی نکا ح خواں لے کر پہنچو‘‘ راتوں رات نکاح کے بعدہیروئین اپنے ’’شکار‘‘ شوہر کو لے کر اپنے ہل سٹیشن والے گھر کی طرف روانہ ہونے سےپہلے وکیل کو بریف کرتی ہے کہ تم ہفتہ دس دن کے بعد پولیس لے کر پہنچ جانا تاکہ ’’قاتل شوہر‘‘ کیفر کردار کو پہنچے اوروہ مرحوم باپ کی ساری پراپرٹی حاصل کرسکے۔وکیل پروگرام کے مطابق طے شدہ تاریخ پر پولیس پارٹی کےساتھ ہل سٹیشن والے گھر پہنچ کر ہیرو کو گرفتارکروا دیتاہے۔ پولیس اسے لے کر لاہور آ جاتی ہے تو پیچھے ہیروئین پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو انتہائی ہینڈسم، بے حد مہذب اور پڑھے لکھے ہیرو کی محبت میں سچ مچ گرفتارہوچکی ہے۔ وہ بھاگم بھاگ پریشانی کے عالم میں واپس آ کر ہیرو کو بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہیرو اس سے بدظن بلکہ متنفر ہو چکاہوتاہے اور سمجھتا ہے کہ ایسی مکار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے سے تو قید یا پھانسی بہتر ہے۔ دوسری طرف جس عورت کی عزت بچانےکے لئے ہیرو نے قتل کیا ہوتاہے، وہ اپنے محسن کو بچانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہے۔قارئین!فلم کاانجام جاننا چاہیں تو ’’سات لاکھ‘‘مارکیٹ میں موجود ہے خود دیکھ لیں کہ مجھے تو یہ فلم ایک خبر پڑھ کر یاد آئی ہے کہ امریکہ میں ایک ارب پتی باپ اپنی بیٹیوں کے لئے پونے چار ارب روپے چھوڑ گیا لیکن مارک نامی اس باپ نےایک وصیت بھی چھوڑی ہے کہ ایک کروڑ 70لاکھ خیراتی کاموں کے لئے دینےکے بعد باقی رقم اس کی بیٹیوں 21 سالہ مارلینااور17 سالہ وکٹوریا کو صرف اس صورت میں ملے گی اگر وہ باپ کی ’’شرطیں‘‘ پوری کریں گی۔پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کسی اچھی یونیورسٹی سے ڈگریاں لیں گی اور ڈگریاں لینے کے بعد سو سو لفظوں پر مشتمل مضمون لکھیں گی کہ وہ یہ رقم کیسے اور کہاں خرچ کریں گی اور اگر مارک کے مقرر کئے گئے متولی ان کے مضامین کو قبول کرلیتے ہیں تو انہیں رقم دے دی جائے گی ورنہ بالکل نہیں۔دوسری شرط ’’سات لاکھ‘‘ کی ہیروئین کے باپ جیسی ہی ہے کہ رقم کا دوسراحصہ یہ دوسری شرط پوری کرنے پر ملے گا کہ دونوں مناسب شوہروں کے ساتھ شادیاں کرکے اولادپیداکریں گی اور ان دونوں کے شوہر انہیں یہ لکھ کر دیں گے کہ وہ اپنی بیویوں کی دولت کو ہاتھ نہیں لگائیںگے۔بچپن میں ’’سات لاکھ‘‘ کی کہانی دلچسپ لیکن صرف کہانی ہی لگی تھی لیکن آج تقریباً 60 سال بعد معلوم ہواکہ ’’سات لاکھ‘‘ تو سچی کہانی تھی جو مصنف 60 سال پہلے لکھ گیا تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مارلینا اور وکٹوریہ کیا کرتی ہیں؟ 
تازہ ترین