• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابن خلدون سے لے کر ہما رے عہد کے نامور مورخ ٹائن بی تک ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے احساس تحفظ کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ معاشی ترقی، تعلیم، صحت، مواصلات اپنی جگہ نہایت اہم ہیں لیکن ریاست کا جواز اور کلیدی فرض اپنے شہریوں کو احساس تحفظ فراہم کرنا ہے۔ میرے ذاتی مطالعے اور تجربے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ جس ریاست کے شہری احساس تحفظ سے محروم ہوں ، وہاں قومی یکجہتی کا جذبہ نشوونما پاتا ہے نہ معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔ احساس تحفظ سے محروم قوم بے چینی اور غیر یقینی کا شکار رہتی ہے جس سے گروہی تعصبات پروان چڑھتے اور دشمن ممالک فائدہ اٹھاتے ہیں۔ احساس تحفظ سے میری مراد خارجی نہیں بلکہ داخلی احساس تحفظ ہے جسے قائم و دائم رکھنے کے لئے اہل ،متحرک اور جذبے سے معمور انتظامیہ اور قابل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ پاکستان کے شہری ہیں، اپنے آپ سے پوچھئے کیا آپ کو احساس تحفظ حاصل ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ یا آپ کی اولاد یا فیملی رات تک بخیر و عافیت گھر پہنچ جائے گی یا آپ کی غیر حاضری میں کوئی واردات برپا نہیں ہوگی۔ میں اپنے طور پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس ملک کے سب سے بڑے صوبے میں چھ ماہ کے دوران9سال سے لے کر14،15سال تک کے645 بچے(لڑکے اور لڑکیاں) اغواء ہوجائیں اور یہ خبر سرکاری رپوٹروں کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی نمایا ں جگہ پائے تو اس ملک کے شہریوں کو احساس تحفظ ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا۔ ذرا غور کیجئے یقیناً آپ بھی صاحب اولاد ہوں گے، آپ کے نواسے، نواسیاں، بھانجے، بھتیجے اور دوسرے عزیز و اقارب بھی ہوں گے۔ کیا آپ یہ خبر سن کر رات کو آرام سے سو سکیںگے۔ پنجاب میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران چھ سو سے زیادہ بچے بچیاںاغواء ہوگئے۔ اسی طرح کی صورتحال سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہوگی جس کے سرکاری اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔ حیرت ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نےلاہور میں کرنٹ لگنے سے دو افراد کی ہلاکت کا نوٹس تو لے لیا لیکن ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ بچوں کے اغواء کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ جناب وزیر اعظم کو صحتیابی اور آزاد کشمیر میں ا نتخابی فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے عرض کروں گا کہ معاشی ترقی کے منصوبے، اقتصادی راہداری، لاہور میں فلائی اووروں کی تعمیر ،میٹروبس، اورنج ٹرین اور وزیر اعلیٰ کی بھاگ دوڑ اپنی جگہ یقیناً اہم ہے لیکن ان سب سے زیادہ اہم فریضہ عوام کو احساس تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سابق وزیر اعظم گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کے بیٹے دن دہاڑے اغواء ہوئے، چیف جسٹس سندھ کا لخت جگر پررونق مقام سے اغواء کرکے کئی روز کراچی میں رکھا گیا۔ ہماری سڑکوں پر ناکے بھی موجود ہیں اور پولیس کی مختلف قسمیں بھی گشت کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تمام تدابیر کے باوجود اغواء کئے جانے والوں کو فاٹا کے علاقوں تک پہنچا دیا جانا ہماری نااہلی اور انتظامیہ کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہروں ا ور سڑکوں پر ناکے اور چیکنگ صرف بے ضرر اور شریف شہریوں کے لئے ہے جنہیں پولیس تنگ کرتی اور رقم بٹورتی ہے جبکہ مجرم اور اغواء کئے جانے والوں کوکسی مشکل کے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں۔ اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، جرائم میں روز افزوں اضافہ، پسند کی شادیوں پر لڑکیوں کا قتل عام اور غیرت کے نام پر مظالم ایسے واقعات اور عوامل ہیں جنہوں نے لوگوں کو احساس تحفظ سے محروم کردیا ہے اور شہریوں کو سیاسی قیادت سے بدظن کردیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے انتظامی محکموں کی نااہلی اور عدم دلچسپی تو روز روشن کی مانند عیاں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی کرپشن اور رشوت ستانی نے بھی شہریوں کو مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ محکمہ پولیس اور محکمہ مال کی رشوت ستانی تو ناگزیر برائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکار کے کسی محکمے میں بھی رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ پنجاب میں تو حکومتی ٹیکس حتیٰ کہ کار کا ٹوکن بھی ادا کرنے کے لئے رشوت دینی پڑتی ہے۔ ٹائوٹ ازم کا راج ہے۔ حکومت جو قانون بھی بناتی ہے پولیس اس سے پیسے بنانے کا راستہ ڈھونڈھ لیتی ہے۔ حکومت نے سیکورٹی کے حوالے سے مکانات کرایے پر لینے والوں کی رجسٹریشن کانظام وضع کیا تو پولیس نے اس میں بھی فارم وصول کرنے کی رشوت مقرر کردی۔ جواز یہ ہے کہ ڈیلر نے کمیشن کمایا ہے اس میں سے حصہ دے۔ صوبوں کی انتظامیہ نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے لیکن افسوس کہ صوبوں کی سیاسی قیادتیں بے حس اور بےبس نظر آتی ہیں۔ بڑے بڑے اسیکنڈل تو ہر روز میڈیا کی ا سکرینوں پر بے نقاب ہوتے ہیں لیکن ایک عام شہری پر کیا گزرتی ہے اور اس کی زندگی کن مسائل نے اجیرن بنا رکھی ہے اس کا حال بیان ہوہی نہیں سکتا کیونکہ کہانی طویل ہے اور کرپشن ہمارے سسٹم کا حصہ بن چکی ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب تمام تر بھاگ دوڑ، محنت اور دعوئوں کے باوجود پولیس کی کارکردگی کو بہتر بناسکے ہیں نہ دوسرے صوبائی محکموں کی ورکنگ کو کسی مربوط نظام کی شکل دے سکے ہیں۔ ان حالات میں سفارش اور رشوت کے بغیر جائز ترین کام کا ہونا بھی معجزے سے کم نہیں اور شاید خادم اعلیٰ کو اس صورتحال کا احساس بھی نہیں۔ رہی معاشی ترقی تو جس ملک میں کھربوں روپوں کے قرضے معاف کرکے مالیاتی اداروں کو لوٹ کر اقرباء نوازی اور دوست پروری کی جاتی ہو وہاں معاشی ترقی کی رفتار کیسے اطمینان بخش ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کا یہ کارنامہ سیاہ حروف میں لکھا جائے گا کہ بینظیر کے دور حکومت میں سات ارب، زرداری کی بادشاہت کے دوران 125ارب، مشرف کی آمریت کے سایے تلے 59 ارب اور صنعت کار وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نامکمل ادوار حکومت میں280ارب کے قرضے معاف کئے گئے۔ گویا میرے محترم میاں صاحب سب پر بازی لے گئے۔ پاناما لیکس اور بیرون ملک جائیدادوں اور سوئٹزر لینڈ میں پڑے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر کی مانند یہ اسیکنڈل بھی دب جائے گا کیونکہ ہماری قوم ا سیکنڈلوں کی اس قدر عادی ہوچکی ہے اور مایوسی اور یاس کی اس قدر شکار ہے کہ بے حسی کا عالم طاری ہے۔
ابن خلدون سے لے کر ٹائن بی تک سبھی فلاسفر مورخین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو احساس تحفظ فراہم کرنا ریاست اور حکومت کی اولین اور کلیدی ذمہ داری ہے۔ ناکام ریاست وہ نہیں ہوتی جسے کوئی امریکی ایجنسی ناکام قرار دے بلکہ ناکام حکومت وہ ہوتی ہے جس کے دور میں شہری احساس تحفظ سے محروم ہوں۔
تازہ ترین