• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیریوں کوپاکستانی قوم اور حکومت کی شدت سے مطلوب معاونت کی فراہمی کے جائزے میں اس پہلو پر مسلسل اور گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سفاک مودی حکومت ان کی بے قابو تحریک کو کچلنے کے لئے بدل بدل کر اور اضافوں کے ساتھ کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے؟ جو کچھ کررہی ہے وہ سب بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کی روشنی میں مجرمانہ اور عالمی برادری کے فوری نوٹس کا متقاضی ہے لیکن بھارتی قیادت، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی اس امر کا اندازہ لگانے کی صلاحیت سے تقریباً یکسر محروم ہیں کہ بھارت نے تقاضوں کے برعکس دیرینہ مسئلے پر جو قابل مذمت رویہ اختیار کیا ہوا ہے پھر وہ مقبوضہ کشمیر میں جس دیدہ دلیری سے ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے، یہ بھارت سمیت پورے خطے کے استحکام اور عالمی امن کے لئے کتنا بڑھتا خطرہ ہے۔ دنیا بھر کی ذمہ دار حکومتیں پاکستان اور بھارت کی ایٹمی ہمسائیگی کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں، وہ مسئلہ کشمیرپر پاکستان کی بطور فریق حیثیت کو بھی بغیر اظہار کے تسلیم کرتی ہیں، ان کی عدم توجہی اور لاپروائی کی وجہ فقط ان کے بھارت سے اور خود بقول واشنگٹن’’امریکہ بھارت کا فطری حلیف‘‘سے وابستہ روایتی مفادات ہیں۔ اب تو مقبوضہ کشمیر میں زور دار لیکن اتنی ہی پرامن اور منظم خالصتاً مقامی تحریک پھر بحال ہوگئی ہے، بھارت تو معمول اور قدرے خاموشی کے ایام میں چوکس رہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے دنیا کو ممکنہ حد تک کاٹے رکھنے اور میڈیا کو بے خبر رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتا آرہا ہے۔ یہی استعماری سوچ اختیار کئے اس نے نئی دہلی میں موجود انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں کے لئے بھی مقبوضہ کشمیر کو ناقابل پہنچ بنایا ہوا ہے لیکن اب حصول حق خودارادیت کی تحریک کو جاری و ساری رکھنے کے لئے جیسے پورے مقبوضہ علاقے کی آبادی طویل کرفیو کی پابندی کو توڑتے ہوئے گھروں سے باہر امڈ آئی ہے سراپا تحریک کشمیری ٹینکوں ، مشین گنوں، اوپن فائرنگ اور ممنوع حربوں اور ہتھیاروں کے کھلے استعمال کے مقابل پاکستانی پرچم تھامے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ اینٹ پتھر اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے بلند کرتے متفقہ و متحدہ نعروں سے کررہے ہیں۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور کشمیریوں کے عزم کے اظہار اور جرأت ، دونوں نے اتنی تشویشناک صورت پیدا کردی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب بانکی مون اور حکومت چین بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے، حتیٰ کہ او آئی سی بھی جاگ گئ، جس کے سیکرٹری جنرل نے بھارتی حکومتی رویے کی مذمت اور بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خود بھارت میں بنیادی انسانی حقوق کے کچھ سرگرم اور ذمہ دار میڈیا کا ایک محدود سیکشن بھی اپنی حکومت کو مشورہ دے رہا ہے کہ وہ تنازع پر رجعت پسندانہ مؤقف میں لچک پیدا کرکے پرامن حل کے امکانات کا جائزہ لے۔مودی حکومت کشمیریوں کا دنیا حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر سے باہر بھارتی آبادی اور پاکستان سے ابلاغ ختم کرنے اور عالمی برداری کی نظر سے کشمیرکی بگڑتی صورتحال کو اوجھل رکھنے کے تمام حربوں کے ساتھ ساتھ دہشت اور تشدد کی ڈگری بڑھانے اور ریاستی دہشت گردی کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی نفری بڑھانے اور بڑی تعداد میں کمانڈوز بھیجنے جیسے حالات کو مزید بگاڑنے والے حربے استعمال کررہی ہے۔
ایسے میں جدوجہد آزادی میں مصروف عمل کشمیریوں کو پاکستانی حکومت کی سفارتی، قوم کی سیاسی ، پارلیمانی و ابلاغی، سمندر پار پاکستانی تنظیموں کے وقت اور مالی معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ داخلی سیاست اور اپنی بیڈ گورننس کے دبائو میں گھری ہماری حکومت بہرحال کشمیریوں کی حمایت میں تشکیل پاتی گہری جذباتی پاکستانی رائے عامہ کے دبائو پر اب سرگرم ہے۔ اس پر کوئی الزام نہیں کہ وہ کوئی کشمیر کاز سے بے وفا ہے جیسی کارکردگی اس کی ہر شعبے میں ہے، ایسا ہی اس کا ڈھیلا ڈھالا رویہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مقبوضہ علاقے میں پیدا ہونے والی جاری تحریک کے مجموعی رسپانس کے حوالے سے رہا، تاہم اب اسے جگا دیا گیا ہے تو تمام تر داخلی اختلافات اور عملی سیاست سے بالا ہو کر، متحد و منظم ہو کر کشمیریوں کی بھرپور معاونت کا وقت ہے۔ شکر الحمدللہ، رویے کی بات اور ہےقوم اور حکومت دونوں کا مل کر پاکستان کا پوٹینشل اتنا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے، عالمی برادری میں اس دیرینہ عالمی مسئلے پر سنجیدگی پیدا کرنے اور کشمیریوں کی تحریک کی تفصیلات سے دنیا بھر کو آگے کرنے کے جملہ نتیجہ خیز اقدامات کرسکتے ہیں جن کے ذریعے پاکستان میں کشمیریوں کے حصول حق خودارادیت کی تسلیم شدہ حقیقت کو اجاگر کرنے کشمیریوں کی تحریک مکمل قابل قبول ہونے کے اور اس کے جاندار جواز کو واضح کرنے کے ساتھ دنیا کو بھارت کا حقیقی چہرہ اور اس کی مجرمانہ ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
اس عظیم قومی مقصد کے لئے پاکستان کو فوری طور پر کشمیریوں کو مطلوب ابلاغی معاونت(کمیونیکیشن سپورٹ) کی شدید ضرورت ہے۔ہمارے پاس اس کے مختلف شکلوں میں مطلوب وسائل موجودہیں۔ یہ ابلاغی معاونت کا نظام کیا ہے؟ یہ بہت مفصل ہمہ گیر اور نتیجہ خیز ہوگا۔ بوجوہ(خصوصاً طوالت کے باعث) اس کی تفصیلات یہاں بیان نہیں کی جاسکتیں۔ اس ضمن میں نتائج کے اعتبار سے فقیر مددِ خدا پر کامل یقین رکھتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اپنی نوعیت کے با عث اتنا کثیر الجہد اور حساس ہے کہ اس کے اسٹیک ہولڈرز بڑی تعداد میں ہیں، پر و پاکستان و کشمیر بھی اور کشمیر مخالف اور پروانڈیا بھی۔ یقیناً ہمارا ٹارگٹ تو وہی ا سٹیک ہولڈر ہیں جو کتنی ہی وجوہات (تمام ہی جائز) کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے ا سٹیک ہولڈر ہیں یا بن سکتے ہیں۔ یہ کام ایک بڑی منصوبہ بندی، سائنٹیفک سوچ و عمل سے ممکن ہوگا۔ سو وہ پرو پاکستان و کشمیر اسٹیک ہولڈرز جو تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کچھ بیدار ہیں، یا ہورہے ہیں یا جنہیں ہونا چاہئے اور وہ ہوسکتے ہیں، وہ مطلوب کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم پر تبادلہ خیال کے لئے خاکسار سے اپنی دلچسپی کا اظہار کریں تاکہ بمطابق کشمیریوں کی تحریک آزادی کا تادم حصول حق ، ابلاغی معاونت کی فراہمی کا کام آگے بڑھے۔ کشمیریوں کی خودارادیت کا اظہار مقبوضہ علاقے میں پاکستانی پرچموں کے ز یر سایہ ریاستی دہشت گردی کے سامنے سینہ سپر ہو کر ہورہا ہے لیکن ضرورت فقط یہ واضح کرنے کی ہی نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حقیقت اور جواز کوئی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کے حوالے سے ہے، وہ تو ہے ہی لیکن اس کا تعلق خود بھارت اور پاکستان کی آبادی کی سسکتی ،مفلوک آبادی سے بھی بہت گہرا ہے۔ علاقائی استحکام اور عالمی معاشرہ اس سے کیونکر متاثر ہوتا ہے، یہ (مسئلہ کشمیر) کیسے(بقول سابق امریکی صدر کلنٹن) ’’فلیش پوائنٹ‘‘ ہے جس کے بھڑکنے کا خدشہ تنہا کشمیریوں کے ہی نہیں خود بھارت کے لئے بھی پاکستان سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ اب یہ پوری دنیا بھارت کے عوام اور اس کے حلیفوں پر بھی واضح کردیا جائے۔
تازہ ترین