• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کو نہتے انسانوں پر ظلم کی سوچ بدلنا ہو گی
بھارت:پاکستان سوچ بدلے۔ پاکستان: کشمیر کا فیصلہ بھارت نہیں کشمیری کریں گے۔ محبوبہ مفتی:دونوں ممالک مذاکرات کریں، بھارتی فوج وادی سے واپس جائے، پاکستان کیا پوری آزاد دنیا کی یہ سوچ ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ملنا چاہئے، یہ سوچ بدلنے سے تو ریاستی دہشت گردی کی تائید ہو گی اور ایسا کرنا بین الاقوامی نوعیت کا جرم ہے، پاکستان کی سوچ کہیں یا موقف یہی ہے کہ کشمیر کا فیصلہ بھارت نہیں کشمیری کریں گے، مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارت سرکار سے کھل کر مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی فوج وادی سے واپس جائے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کی حکومت کے لئے فوج کی موجودگی خطرہ ہے، فوج نہتے کشمیریوں پر گولی چلاتی ہے اور سویلین حکومت کچھ نہیں کر سکتی، یہ صورتحال مقبوضہ کشمیر میں فوجی راج جیسی ہے جس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ہندو نیتائوں کو شرم آنی چاہئے۔ عالمی برادری کو اس کے خلاف سخت نوٹس اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرنا چاہئے، امریکہ جو انسانی حقوق کا علم اٹھا کر بھی خاموش ہے، مظلوم انسانیت کے ساتھ زیادتی کے خلاف آواز اٹھائے اور اپنے لے پالک بھارت کو روکے، جو اس کی شہ پر ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ کیا واقعی دہشت گردوں کا مخالف ہے، اور اپنوں کو اس کی اجازت دیتا ہے، یہ مشکوک انداز زیادہ دیر دہشت گردی کو روکنے کے امریکی موقف کو قائم نہیں رکھ سکے گا، اور یہ دوغلا پن اب تقریباً انسانی حقوق کی تائید کرنے والوں پر کھل گیا ہے۔
٭٭٭٭
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ نیند گزار کے
قائم علی شاہ کی چھٹی، نیا وزیر اعلیٰ آئے گا،پی پی قیادت کا متفقہ فیصلہ، زرداری کا سائیں کو شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے بڑا عرصہ انہیں برداشت کیا، آخر لمبی رات ختم ہوئی، شاہ جی کو نیند سے جگا کر وزارت علیا کا اختیار نامہ تاحال کسی کے سپرد نہیں کیا گیا تاہم مراد علی شاہ کی نامزدگی کر دی گئی ہے، حلف برداری کب ہو گی یہ خبر بھیباہر سے آئے گی، بہرحال یہ تبدیلی شاید اب پیپلز پارٹی کے لئے ضروری ہو چکی تھی، اورقیادت نے درست فیصلہ کیا، شاید اب کراچی کے حالات میں رکاوٹوں والی سیاست ختم ہو، اور امن کا قیام ہو ہی جائے، قائم علی شاہ کی رخصتی اب ویسے بھی ٹھہر گئی تھی، ورنہ پی پی نے اپنی سی بتہیری کوشش کی کہ ان کی نیند نہ ٹوٹے، بلاول کے مطابق ان کے دبئی سے واپسی پر پارٹی کی تنظیم نو ہو گی، اکھاڑ پچھاڑ ہو گی، اگر پی پی قیادت بُرا نہ منائے اور اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرے کہ اب اس کا وہ پہلا جیسا امیج برقرار نہیں رہا تو شاید بھٹو مرحوم کے فلسفے پر عمل کرنے سے بلاول بھٹو زرداری اپنے مشن میں کامیاب ہو سکیں، اگر کراچی کے امن میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی، رینجرز کو جیسا کہ کسی پر بھی ہاتھ ڈالنے کا اختیار دے دیا گیا اور پی پی نے مکمل امن کی اجازت دے دی تو یہ کریڈٹ امیج کو کافی حد تک بہتر کر سکتا ہے، حسرتؔ نے کہا تھا؎
خوب جب تک نہ ٹھوکریں کھائے
آدمی راہ پر نہیں آتا
٭٭٭٭
ہو رہے گی بیورو کریسی، اردو کریسی
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی نے کہا ہے:اردو نافذ نہ ہونے کی بڑی وجہ بیورو کریسی ہے، عدالتی فیصلے کے خلاف کئی وزراء نے بھی آوازیں بلند کیں عرفان صدیقی خود صاحب طرز ادیب ہیں، اور اردو زبان پھولوں میں پرو کر لکھتے ہیں، اردو زبان کا نفاذ تو ان کی زبان دانی کے زور پر ہی ہو جانا چاہئے مگر یہ سچ ہے کہ بیورو کریسی آڑے آ رہی ہے، اس کا سیدھا علاج یہ ہے کہ مقابلے کے تمام امتحانات، کورس، تربیت اردو میں کر دی جائے، بیورو کریسی اردو کریسی ہو جائے گی، ہمارے ہاں عدالتی فیصلہ بھی نفاذ اردو کے حق میں ہو چکا ہے، آئین بھی یہی کہتا ہے، پھر بھی ہمارے کئی وزراء نے بھی اردو کے خلاف آوازیں اس لئے بلند کیں کہ ان کو انگریزی نہیں آتی، کیا عجب منطق ہے، بہر صورت وزیراعظم نے اردو کے نفاذ کے لئے جو 10نکات پیش کئے ہیں، ان پر عملدرآمد کے قوی امکانات ہیں، عدالتوں میں تو نفاذ اردو جزوی طور پر ہو چکا ہے، یہ بات درست ہے کہ اردو اب تک نافذ ہو چکی ہوتی تو پاکستان بہت آگے نکل گیا ہوتا، انگریزی سیکھنے اور بوقت ضرورت باقی دنیا سے مربوط رہنے کے لئے ضرور استعمال کی جائے سیکھی جائے، بولی جائے مگر اسے پاکستان کی قومی زبان کی جگہ نافذ نہ کیا جائے، تاکہ ہمارا چہرہ مزید مسخ نہ ہو، بڑی بڑی بڑے لوگوں کی محفلوں میں اگر اقبال کا شعر سنایا تو بڑوں بڑوں نے کہا ہمارے تو سروں پر سے گزر گیا، اور مقصد یہ تھا کہ ہم انگریزی جانتے ہیں اردو ہماری کسرِ شان ہے، حالانکہ موصوفوں کو اردو انگریزی سے زیادہ آتی ہے، البتہ انگریزی ان کی مشکوک کیا مدقوق ہوتی ہے، پھر بھی یہ ان کا اسٹیٹس سمبل ہے، اردو کے نفاذ کے لئے پاکستان کے عوام کھڑے ہوں کہ پاکستان ان کے آبائو نے بنایا تھا اردو بھی وہی نافذ کرائیں گے۔
٭٭٭٭
رُکے ہوئے ہیں مرے اشک کارواں کی طرح
....Oمیاں محمود الرشید تحریک انصاف:قرضے معاف کرانے والے قبول نہیں۔
میاں صاحب آپ کا تو اپنی پارٹی کے قرضے معاف کرانے والوں سے رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔
....Oلیاقت بلوچ:بھارت سے معاہدے ختم کئے جائیں،
اگر اس طرح کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، تو دیر کس بات کی۔
....Oمحمد صدیق الفاروق:کھربوں کی جائیدادیں واگزار کرائیں،
آپ کا پہلا نمبر، اب ان زمینوں کو بے زمینوں میں تقسیم کر دیں۔
....Oاعتزاز احسن:سڑکوں پر آنے سے گریز نہیں کریں گے،
آ کر بھی گویا نہیں آئیں گے،
تازہ ترین