• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت صوبہ پنجاب میں صحت کی سہولتوں کے حوالے سے ایک زور دار میٹنگ ہوئی جس میں 80 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ جن میں ڈاکٹرز، شعبہ صحت سے وابستہ افراد اور صحافی شامل تھے۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ شہباز شریف کی شعبہ صحت میں دلچسپی، اس کو بہتر بنانے اور مریضوں کو سہولتیں دینے کے حوالے سے خدمات اور کوششوں میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کی ٹیم میں بعض ایسے افراد شامل ہیں اور ہو رہے ہیں جن کے بارے میں کافی تحفظات ہیں۔ ہم وزیر اعلیٰ سے درخواست کریں گے جن لوگوں نے اپنے اداروں میں پہلے کچھ نہیں کیا وہ اب کیا کریں گے۔ لہٰذا ان سے محتاط رہیں۔
کسی بھی ہیلتھ سسٹم کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے ڈاکٹر، مریض، مشینیں/ آلات اور فنڈز ہوتے ہیں۔یہ ایک تکون ہے جو شعبہ صحت کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔ ڈاکٹر بھی ہو، مریض بھی ہو، اگر مشینیں اور آلات درست نہیں تو علاج کیسے ہوگا؟ اگر مشینیں بھی ہیں علاج تجویز بھی ہوگیا اور ادویات نہیں اور پیسہ نہیں تو پھر مریض کیسے صحت یاب ہوگا؟ آج کی میڈیکل سائنس میں ڈاکٹر کے علاوہ کسی بیماری کی تشخیص، علاج اور سرجری میں مشینوں کا رول بڑا اہم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شعبہ صحت کےبعض مفاد پرست لوگ جان بوجھ کر مشینوں اور آلات والے شعبے کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر کمیشن کے چکر میں اپنی مرضی کی گھٹیااور غیر معیاری مشینیں اور آلات خرید لیتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسپتالوں میں مریضوں کی تشخیص کاسارا نظام لیبارٹریوں اور مختلف ٹیسٹوں کی روشنی میں ہوتا ہے اگر مشینیں ناقص، گھٹیا اور غیرمعیاری ہوں گی تو یقینی بات ہے کہ علاج بھی غلط ہو جائے گا اور مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ بڑے شہروں میں تو جیسے تیسے مشینیں کام کرتی رہتی ہیں بلکہ وہ بھی اکثر سرکاری اسپتالوں کے ٹیکنیشنز خراب کردیتے ہیں کیونکہ بے شمار سرکاری اسپتالوں کے ٹیکنیشنز شام کو اسی اسپتال کے ڈاکٹر کے کلینک میں کام کرتے ہیں۔
بڑے سال پرانی بات ہے کہ ایک بڑے سرکاری اسپتال میں ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین لگا اور ان دونوں مشینوں نے چند ہفتوں میں کام کرنا چھوڑ دیا ہم بھی وہاں گئے کچھ تحقیق کی، دائیں بائیں بات کی تو پتہ چلا کہ اس اسپتال کے شعبہ الٹراسائونڈ کے ایک ڈاکٹر نے یہ دونوں مشینیں خود لگا رکھی ہیں اور ان کا ٹیکنیشن سرکار کی مشینوں کو خراب کرکے مریضوں کو ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک کا پتہ دے دیتا ہے۔
ہمارے ہاں حکومت ٹینڈر کے ذریعے ادویات، مشینوں اور آلات کی خریداری کرتی ہے۔ ہر حکومت کی یہ پالیسی ہوتی ہے کہ ٹینڈر میں جوبولی کم آئے گی وہ چیز خریدی جائے گی۔ لاہور کے ایک معروف ماہر انستھیزیا پروفیسر گیلانی سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’’جو دوائی کی گولی حکومت بیس پیسے/ چالیس پیسے میں خریدے گی اس سے شفا کیسے ملے گی؟‘‘۔
وزیر اعلیٰ کی اس میٹنگ میں انستھیزیا (یعنی بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر) کے شعبے میں ڈاکٹروں کی شدید کمی پر بڑی طویل بات ہوئی مگر دکھ کی بات یہ تھی کہ انستھیزیا کے شعبے پر بات کرنے کے لئے اس شعبے کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ وزیر اعلیٰ کی کوششوں کو کس خوبصورتی کے ساتھ مخصوص لوگ خراب کر رہے ہیں۔ جب ایجنڈا میں یہ بات طے تھی کہ انستھیزیا کے ڈاکٹروں کی کمی پر بات ہوگی تو اس شعبے سے کسی بھی سینئر یا ریٹائرڈ پروفیسر کو مدعو کیا جانا چاہئے تھا تاکہ وہ بہتر انداز میں بتاتے کہ اس شعبے میں ڈاکٹروں کی کمی اور مسائل کیوں ہیں ؟اور کیوں نہیں ڈاکٹرز اس طرف آتے؟ پرانی بات ہے کہ لاہور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہمارے کسی جاننے والا کا آپریشن تھا اس وقت لاہور کے ایک معروف انستھیزیا کے ڈاکٹر تھے وہ مریض کو بے ہوش کرکے ایک اور پرائیویٹ اسپتال میں مریض کو بے ہوش کرنے چلے گئے اس دوران پہلے والے مریض کی طبیعت بگڑنے لگی، جب بے ہوشی والے ڈاکٹر کو تلاش کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ دوسرے اسپتال گئے ہوئے ہیں۔ خیر مریض کی جان تو بچ گئی ہم نے ان ڈاکٹر صاحب سےموبائل پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ دس منٹ میں آ رہا ہوں۔ جب ہم نے اس پر مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر صاحب ایک نہیں بعض اوقات چار قریبی اسپتالوں میں جا کر مریضوں کو بے ہوش کرکے آ جاتے ہیں۔ پھر اس طرح انہیں ہوش میں لاتے ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اگر مریض کی حالت بگڑ جائے یا مرجائے تو یہ سرجن کے کھاتے میں ساری بات جاتی ہے، بے ہوشی والا ڈاکٹر بری الذمہ ہوتا ہے۔
قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کاباعث ہوگی کہ انستھیزیا کے ڈاکٹر کوسرجن کی فیس کا تیسرا حصہ ملتا ہے اور بعض اوقات پرائیویٹ اسپتال اس سے بھی کم اس کو پیسے دیتے ہیں۔ ملتان میں ٹیوب ویل آپریٹر شبیر کمانڈو ایک پرائیویٹ اسپتال میں مریضوں کو بے ہوش کیا کرتا تھا جو کہ پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن نے پکڑ لیاتھا۔
ہمارے ایک دوست جب بیس برس قبل لاہور کے سرکاری اسپتال میں انستھیزیا کے شعبے سے وابستہ تھے تو بے چارے مالی طور پر پریشان تھے جب ولایت گئے تو چند برسوں میں کئی ایکڑ میں انہوں نے اپنا گھر بنالیا یہ علیحدہ بات ہے کہ اب ہمارے ہاں بھی انستھیزیا کے بعض ڈاکٹرز اچھا خاصا کما رہے ہیں خیر اس میٹنگ میں شہباز شریف نے فوراً حکم دیا کہ انستھیزیاکے شعبے میں ڈاکٹروں کی تعداد بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ہمارے خیال میں شعبہ انستھیزیا میں ہائوس جاب کو لازمی قرار دیا جائے اور حکومت ڈاکٹروں سے یہ بانڈ لےکے جس شعبے میں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہو گی وہاں لازمی طور پر کام کرنا ہوگا۔ایک طرف تو شہباز شریف پنجاب ہیلتھ ریفارمرز روڈمیپ کے ذریعے پورے پنجاب کے دور دراز علاقوں میں صحت کی ہر سہولت پہنچانے کے درپے ہیں اور رات دن میٹنگیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف محکمہ صحت میں ایسے افسر بھی ہیں جو محکمے میں صرف اپنے مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں اگرچہ سیکرٹری نجم احمد شاہ نے پورا عزم کر رکھا ہے کہ وہ ہر گڑبڑ کو ٹھیک کریں گے ۔پھر ہمارا فرض بھی بنتا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ کے علم میں چند حقائق ضرور لائیں مثلاً حکومت نے 11جدید ایمبولینس خریدیں ان ایمبولینس میں ایسا سسٹم لگانے کی تجویز دی کہ ان ایمبولینسوں میں ایک ایسا سسٹم لگایا جائےکہ قدرتی ہوا سے آکسیجن حاصل کی جاسکے چونکہ جب کسی زخمی یا مریض کو دور دراز کے علاقہ سے لانا ہوتا ہے تو ایمبولینس میں نصب آکسیجن کے سلنڈر اکثر خراب ہوجاتے ہیں۔یہ طریقہ باہر کے ممالک میں رائج ہے بلکہ آپ اپنے گھروں میں بھی لگا سکتے ہیں پھر ہارٹ اٹیک کےمریضوں کے لئے بجلی کے جھٹکے دینے کے لئے DEFIBRILLATOR بھی لگانے کا انتظام کیا گیا تاکہ مریض کی جان بچ سکے ۔ مگر محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر جو سیکرٹری سےکم درجے کے ہوتے ہیں انہوں نے یہ دونوں اہم مشینیں ایمبولینس سے اتار دیں کہ ان کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں اسپتال جدید ایمبولینس بنا رہے ہیں ہمارے ہاں جدید ایمبولینسوں کو پرانے وقتوں میں لے جایا جا رہا ہے یہ ایمبولینسیں اب خراب ہو رہی ہیں اس طرح 193سوزوکی ڈبے مختلف ہیلتھ مراکز کےلئے خریدے گئے یہ بھی ایمبولینسیز ہیں ایک مدت سے کھلے آسمان میں کھڑی ہیں اور خراب ہو رہی ہیں یہ گیارہ جدید ایمبولینس بہاولپور، راجن پور کے اضلاع کےلئے خریدی گئی تھیں کتنی دلچسپ بات ہے کہ جب اعلیٰ افسر کے خلاف انکوائری چلتی ہے اور اسے ایک اعلیٰ عہدےپر بھی بٹھا دیا گیا سنا ہے وہ اپنی بھی کوئی لیب چلا رہا ہے۔
تازہ ترین