• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ہمارے ہاں نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو تو ہے مگر اس کے لئے جو ریاضت اور مشقت درکار ہے اس کے لئے کوئی تیار نہیں۔انہیں شارٹ کٹ کی تلاش رہتی ہے کہ بس اچانک کوئی لاٹری لگ جائے اور زندگی سنور جائے۔جو لوگ چارو ناچار کسی کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں ،وہ بھی ابتدائی مشکلات سے گھبرا کر بہت جلد ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں۔میں اپنے معاشرے کے جتنے بھی ناکام لوگوں سے ملا ہوں ،انہوں نے تب ہمت ہار دی جب کہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہوا کرتی ہے لیکن چونکہ اس بات کا یقین نہیں کرتے اس لئے جب بھی کسی کام میں ناکامی ہوتی ہے تو فوراً مایوس ہو جاتے ہیں۔ بچہ امتحان میں فیل ہو جائے ٗ کسی حادثے کے نتیجے میں نقصان ہو جائے ٗ تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری نہ ملے یا کاروبار نہ چلے تو دوبارہ طبع آزمائی کرنے اور جدوجہد کا راستہ اپنانے کے بجائے توبزدلوں کی طرح نا امید ہو کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں یا کم ہمت افراد کی طرح زندگی سے نجات حاصل کرنے کی خواہش پالنے لگتے ہیں۔ مجھے روزانہ کئی پڑھے لکھے نوجوانوں کی ای میلز آتی ہیں ٗ خطوط موصول ہوتے ہیں اور ٹیلی فون آتے ہیں کہ میں نے ہر کلاس میں فرسٹ ڈویژن لی ہے ایم اے کی ڈگری ہے مگر نوکری نہیں مل رہی ۔میں نے بڑی مشکل سے چار پیسے جوڑ کر چھوٹا موٹا کاروبار کیا مگر دیوالیہ نکل گیا اور اب زہر پھانکنے کو بھی پیسے نہیں۔
دنیا کے جتنے کامیاب ترین انسان ہیں اگر وہ ابتدائی ناکامیوں سے مایوس اور بددل ہو جاتے تو کبھی اس مقام تک نہ پہنچتے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں شاید ہی کوئی ایسا کامیاب انسان ہو جس نے ناکامیوں کا سامنا نہ کیا ہو۔ ایک مشروب ساز کمپنی جس کا پوری دنیا میں نام ہے اس کمپنی نے اپنا مشروب متعارف کرایا تو پہلے سال صرف 400 بوتلیں فروخت ہوئیں یعنی دن بھر میں صرف ایک بوتل اور آج روزانہ لاکھوں نہیں کروڑوں بوتلیں صرف پاکستان میں فروخت ہوتی ہیں۔ باسکٹ بال کا سپرا سٹار مائیکل جورڈن اپنے ہائی اسکول کی باسکٹ بال ٹیم میں منتخب نہیں ہو سکا تھا۔ اگر وہ اپنےا سکول کے باسکٹ بال کوچ کا فیصلہ درست تسلیم کرلیتا تو زندگی میں یہ مقام حاصل نہ کر پاتا۔ ونسٹن چرچل کے علم و دانش کی مثالیں ہر محفل میں دی جاتی ہیں مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ چھٹی جماعت میں فیل ہو گیا تھا صرف یہی نہیں بلکہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں نے اسے نااہل طالب علم قرار دیتے ہوئے داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ البرٹ آئن اسٹائن کے نظریات پڑھے بغیر سائنس کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی لیکن جب اس نے اپنے نظریات پر مبنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ یونیورسٹی آف برن میں پیش کیا تو اسے بے تکا اور غیر حقیقی مقالہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔ یہی آئن اسٹائن 4 سال کی عمر تک قوت گویائی سے محروم رہا اور سات سال کی عمر تک ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہ ہو سکا اس لئے اس کے اساتذہ اسے کند ذہن ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔لوئس پاسچر معروف سائنسدان ہے لیکن انٹرمیڈیٹ تک وہ اوسط درجے کا طالب علم تھا بلکہ کیمسٹری کی کلاس میں تو اسے نکمے ترین طلبہ میں شمار کیا جاتا۔ تھامس ایڈیسن کو اسکول میں کاہل ترین طالب علم کا خطاب ملا اور اس کی ماں اسے گھر پڑھانے پر مجبور ہوئی، یہ وہی تھامس ایڈیسن ہے جس نے بلب ایجاد کیا لیکن اس کی کامیابی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ 2 ہزار مرتبہ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوا۔ تھامس ایڈیسن کے اساتذہ کا خیال تھا کہ وہ اتنا بدھو ہے کہ کچھ سیکھنے کے قابل نہیں۔ آئزک نیوٹن کا شمار اسکول کے نکمے ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ فیڈرل اسمتھ جس نے کوریئر کمپنی کے آغاز کا تصور دیا جب اس نے ایم بی اے کے دوران اپنے پروجیکٹ کے طور پر اس تجویز کو جمع کرایا تو اس کے اساتذہ نے اسے سی گریڈ دیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ تجویز ناقابل عمل تھی۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کرنے کے بعد اس وقت کے حکمرانوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ پیش کیا تو انہوں نے کہا اچھی ایجاد ہے لیکن لوگ اسے استعمال نہیں کریں گے۔ والٹ ڈزنی جس کے نام پر ڈزنی لینڈ جیسا ادارہ قائم ہے اسے اخبار کے ایڈیٹر نے غیر تخلیقی شخص قرار دیکر نوکری سے نکال دیا تھا۔ وہ نوکری سے نکلا تو اس نے ڈزنی لینڈ کی بنیاد رکھی اور کامیابی سے پہلے وہ کئی بار دیوالیہ ہوا۔ فرینکلین روز ویلٹ 39 سال کی عمر میں پولیو کے باعث معذور ہو گیا تھا لیکن اس معذوری کے باوجود وہ 4 مرتبہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ ابراہم لنکن فوج میں تھا تو اس کے افسران نے نا اہلی کی بنیاد پر اس کی تنزلی کا فیصلہ کیا لیکن آج وہ امریکیوں کے بابائے قوم ہیں۔
ابراہم لنکن کی کتاب زیست کے ورق الٹنا شروع کریں تو حیرت و استعجاب کی تمام حدیں ٹوٹ جاتیں ہیں۔ 1816ء میں اس کی فیملی کوگھر سے بیدخل کر دیا گیا لہذا اسے اپنی فیملی کی کفالت کیلئے نوکری کرنا پڑی۔ 2 سال بعد اس کی والدہ دارفانی سے کوچ کر گئیں۔ 1831ء میں کاروبار شروع کیا تو بری طرح ناکام ہوا۔ 1832ء میں ریاستی مجلس قانون ساز میں شمولیت کی کوشش کی۔ کامیابی تو نہ ملی البتہ نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے 1833ء میں دوست سے قرض لیکر پھر کاروبار کرنے کی کوشش کی تو دیوالیہ ہوگیا اور زندگی کے اگلے 17 سال قرض چکانے میں گزر گئے۔ لیکن 1834ء میں دوبارہ مجلس قانون ساز کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہو گئے۔ لیکن اگلے سال 1835ء میں منگنی کے فوراً بعد ہی محبوبہ کا انتقال ہو گیا اور اس صدمے سے ابراہم لنکن کو نروس بریک ڈائون ہوگیا۔ 1838ء میں مجلس قانون ساز کے اسپیکر کا الیکشن لڑا لیکن ناکامی ہوئی۔ 1840ء میں امریکی انتخابی ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ 1843ء میں کانگریس کے الیکشن میں ناکامی ہوئی 1846ء میں دوبارہ کانگریس کا الیکشن لڑا اور اس مرتبہ کامیابی ملی۔ 1848ء میں کانگریس کا اگلا الیکشن ہوا اور پھر ناکامی ہوئی۔ 1854ء میں امریکی سینیٹ کا الیکشن ہارا 1856ء میں پارٹی کی نائب صدارت کا انتخاب جیتنے میں ناکامی ہوئی۔ 1858ء میں پھر سینیٹر کے الیکشن میں ناکامی ہوئی اور آخر کار 1860ء میں صدر امریکہ منتخب ہوئے۔
ہماری جبلت کا تقاضا ہے کہ ہم کامیابیوں سے نہیں ناکامیوں سے سیکھتے ہیں۔ ٹھوکریں کھا کر سنبھلتے ہیں۔ اگر ہماری زندگی میں صرف کامیابیاں اور کامرانیاں ہی ہوں تو سیکھنے کا عمل رک جائے شعوری ارتقاء کا سلسلہ تھم جائے اور ہم حقیقتوں کا ادراک نہ کر پائیں۔ ایک امریکی شخص ڈبلیو مچل 46 سال کی عمر میں موٹر سائیکل حادثے میں جل گیا چند سال بعد ایک فضائی حادثہ ہوا اور اس شخص کا نچلا دھڑ بھی مفلوج ہو گیا۔ لیکن ان حادثات کے نتیجے میں اس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ شوق کمال کچھ اور بڑھ گیا۔ اس نے 65 فیصد جلے ہوئے جسم کیساتھ کاروبار کیا اور ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہوا۔ امریکی ریاست کولاریڈو کے ایک شہر کا میئر منتخب ہوا۔ معذوری کے باوجود کانگریس کا الیکشن لڑا۔ عمر کے اس حصے میں پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایک خاتون سے محبت ہو گئی۔ اس سے شادی کی اور کامیاب زندگی گزاری۔ وہ معذور شخص عمر کے آخری حصے میں معذوری کے باوجود مایوس نہیں ہوا اور ہم جوانی کے ایام میں خود کو بوڑھا سمجھنے لگتے ہیں ٗ صحتمند ہونے کے باوجود اپاہج اور معذور افراد کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کا الزام معاشرتی برائیوں کے سر تھوپتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں… ناکام ہونے کے بعد مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ کون ایسا ہے جو ناکام نہیں ہوا؟ ناکامی کا سامنا تو سب کرتے ہیں مگر پیچھے وہ رہ جاتے ہیں جو ہار جاتے ہیں ٗ ہتھیار پھینک دیتے ہیں ٗ سرنڈر کر لیتے ہیں۔ کیا آپ بھی سرنڈر کر چکے ہیں…؟امریکی کوچ Vince Lombardiنے کیا خوب کہا ہے۔
Winners never quit and quitters never win
تازہ ترین