• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کو مداخلت کے بغیر آزادی سے کام کرنے دیا جائیگا؟

اسلام آباد(انصار عباسی) پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ بہت دیر سے کیا گیا لیکن پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت کے مطالبات کی وجہ سے یہ ا قدام کیا گیا تاکہ پیپلز پارٹی کو اس کے واحد باقی رہ جانے والے گڑھ یعنی سندھ سے تحلیل ہونے سے بچایا جا سکے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں صرف سندھ تک محدود کر دیئے جانے اور بلدیاتی اور کنٹونمنٹس، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد پارٹی میں کئی لوگوں نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اگر صوبائی حکومت نے کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا تو سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا ہو سکتا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں شرمناک شکست کے بعد سے پیپلز پارٹی کے زوال کا سلسلہ رکا نہیں۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے نہ صرف مرکز بلکہ بلوچستان اور سندھ میں بھی حکومت قائم کی تھی۔ کے پی کے میں پیپلز پارٹی اے این پی کی زیر قیادت اتحادی حکومت کا حصہ بنی۔ بعد میں پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی حکومت قائم کی۔ مئی 2013ء سے لے کر اب تک، پیپلز پارٹی کو سندھ کے سوا ہر اس علاقے سے نکال باہر کیا جا چکا ہے جہاں پارٹی کو کسی اور معاملے کی بجائے کرپشن اور خراب کارکردگی کے حوالے سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ جس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت نے بے حسی اختیار کی اسی وقت پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت کیلئے صورتحال باعثِ ہزیمت رہی۔ بلاول بھٹو زرداری سے یہ مطالبات کیے جانے لگے کہ وہ پارٹی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیں اور ساتھ ہی وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بھی تبدیل کریں۔ پارٹی کا چیئرمین ہونے کے باوجود بلاول بھٹو کو پارٹی کا پورا کنٹرول نہیں ملا کیونکہ پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری اب بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم، پارٹی قیادت نے بالآخر وزیراعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ توقع ہے کہ قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ سنبھالیں گے جو فی الوقت صوبائی حکومت میں وزیر خزانہ ہیں۔ اگرچہ مراد علی شاہ کو اہل سمجھا جاتا ہے اور انہیں فیصلہ ساز کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے، یہ واضح نہیں کہ آیا پیپلز پارٹی کی قیادت انہیں آزادی سے اور بیرونی مداخلت کے بغیر صوبہ چلانے دے گی یا نہیں۔ مراد علی شاہ نے امریکا کی بہترین یونیورسٹی سے دو ماسٹرز ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور صوبائی بیوروکریسی بھی انہیں فیصلہ سازی کی وجہ سے پسند کرتی ہے۔ تاہم، وقت بتائے گا کہ وہ کس طرح ان کھلاڑیوں کا مقابلہ کریں گے جو صوبائی حکو مت کے انتظامات معاملات میں مداخلت کے عادی ہیں۔ قائم علی شاہ ایک کمزور منتظم ثابت ہوئے، ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت نہیں تھی کیونکہ بیوروکریسی کو شکایت رہتی تھی کہ مختلف صوبائی محکموں اور ایجنسیوں کی جانب سے فیصلوں کیلئے جو فائلیں انہیں بھجوائی جاتی تھیں وہ کئی مہینوں تک ویسی پڑی رہتی تھیں۔ بیوروکریسی کے ذریعے کا کہنا تھا کہ سی ایم ہائوس میں فیصلوں کیلئے سیکڑوں فائلیں پڑی ہیں۔ قائم علی شاہ کو پارٹی قیادت نے آزادی سے حکومت چلانے نہیں دی۔ نہ صرف صوبائی حکومت کے معاملات میں پارٹی قیادت کی جانب سے مداخلت کی جاتی تھی بلکہ کچھ ایسے ’’دوستوں‘‘ اور ’’رشتہ داروں‘‘ کی بھی مداخلت ہوتی تھی جو صوبائی حکومت پر اپنی پسند کے فیصلوں کیلئے دبائو ڈالتے تھے۔ حتیٰ کہ پولیس والوں اور سرکاری ملازمین کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملات میں بھی انہی رشتہ داروں اور دوستوں کو سرگرم دیکھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کیلئے بڑا چیلنج ایسے با اثر افراد کے متنازع کردار اور اثرات کو زائل کرنا ہوگا۔
تازہ ترین