• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی(تجزیہ:مظہر عباس) سندھ کو اب ایک جوان کپتان کی قیادت میں نئی ٹیم مل جائے گی۔ توقع ہے وہ حکومت چلانے کیلئے نئے تصوّر اور بصیرت کے حامل ہوں گے۔ جس کا پیپلز پارٹی کی گزشتہ مسلسل حکومتوں میں فقدان رہا۔بزرگ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو سبکدوش ہونے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ جن کی جگہ اس وقت صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ لیں گے۔ جہاں قائم علی شاہ کے دور میں ان کی ناکامیوں اور حدود کا جائزہ لینا اہم ہے وہیں صوبے میں نیا حکومتی سیٹ اپ حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لئے بھی حقیقی آزمائش ہوگی۔2013کے عام انتخابات کے بعد جب قائم علی شاہ کوو زیر اعلیٰ سندھ مقرر کیا گیا، اس وقت پیپلز پارٹی کے اندر کسی کے بھی کراچی ٹارگٹڈ ایکشن اور اس کے نتائج وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ بدقسمتی سے حسن حکمرانی اور حسن انتظام پر پیپلز پارٹی نے کبھی توجہ نہیں دی۔ کرپشن کا تاثر بھی گہرا ہوتا چلا گیا ۔ یہ تین بڑے مسائل ہیں جن کا نئے وزیر اعلیٰ کو سامنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت سے بھی سیاسی پریشانیاں موجودہیں۔ تاہم قائم علی شاہ کی ناکامی سابق صدر آصف علی زرداری ان کی بہن فریال تالپور اور قریبی ساتھیوں کی بھی ناکامی ہے جو 2008اور2013 دونوں ادوار میں حکومتی امور میں مکمل طور پر ملوث رہے۔ مثال کے طور پر2008میں قائم علی شاہ نے اس طرز کی مخالفت کی تھی جس انداز میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اس وقت ایم کیو ایم سے نمٹ رہے تھے۔ ایک مرحلے پر تو انہوں نےمتوازی حکومت قائم کرلی تھی۔ جس کے نتیجے میں حالات قابو سے باہر ہوئے لیکن شاہ صاحب سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ ان معاملات سے دور رہیں۔ اپنے تمام تر عملی مقاصد کے لئے وزیر اعلیٰ ہائوس کو باہر سے چلایا جاتا رہا اور قائم علی شاہ کو ’’ڈکٹیشن‘‘ پر عمل کرنا پڑا۔ لیکن منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے انہیں اختیار تھا وہ اس کی مزاحمت کرتے یا مستعفی ہوجائے۔ اگر وہ استعفیٰ طلب کرنے سے پہلے چھوڑ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔اپنے بعض وزراء اور مشیروں کی کرپشن کے حوالے سے سنگین شکایات سے بھی قائم علی شاہ متنازع ہوگئے۔ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور سابق وزیر اویس مظفر ٹپی جیسے افراد ان کے قابو میں نہیں رہے۔ یہ دونوں کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات میں مطلوب ہیں۔ جب آپریشن شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سوچا تک نہ تھا کہ خود ان کا صوبہ بشمول آصف علی زرداری ان کے لئے ’’نوگو ایریا‘‘ بن جائے گا۔ لہذا آصف زرداری خطرے کی بو سونگتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے جاتے ہوئے شاہ صاحب کو اپنے’’دوستوں‘‘ اورحکام کے خلاف ممکنہ کارروائی سے بھی خبردار کردیا تھا۔ آصف زرداری اپنے قریبی دوست ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری کے بعد ہی قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹادینا چاہتے تھے۔ جب دبئی سے کال ملی، اس وقت قائم علی شاہ گرفتاری سے آگاہ بھی نہیں تھے۔ جس بات سے زرداری ناراض ہوئے وہ یہ تھی کہ قائم علی شاہ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو واپسی کے لئے گرین سگنل دیا کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ تاہم جب ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوگئے تو انہیں آپریشن کا کپتان ہونے کے ناطے بڑی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر انہوں نے فوج کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نواز شریف سے بھی احتجاج کیا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی پر چھاپے، منظور کاکا اور نثار مورائی جیسے اعلیٰ حکام کی گرفتاری جو اعلیٰ قیادت کے نہایت قریب سمجھے جاتے ہیں، اس نے صورتحال کو مزید بگاڑدیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جلد احساس ہوگیا کہ رینجرز اکثر آپریشن کے کپتان کی اجازت لئے بغیر از خود کارروائی کرتی ہے۔ دوسری جانب شاہ صاحب نے دبئی سے ہدایات پر کابینہ میں شامل بعض وزراء اور مشیروں کے بارے میں سنگین شکایات سے پارٹی قیادت کو آگاہ کیا۔ لاڑکانہ میں اسد کھرل اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے قائم علی شاہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ذرائع کے مطابق حتیٰ کہ انہوں نے وزیر داخلہ کے بھائی کی رہائی کیلئے ڈائریکٹر جنرل رینجرز سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا۔ اس کے متضاد وہ تو اس بات پر غصے میں تھے جس انداز میں اسد کھرل کو پولیس تحویل سے چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ اب مراد علی شاہ، قائم علی شاہ کی جگہ لیںگے لیکن انہیں بھی اپنے پیشرو کی طرح یکساں مسائل کا سامنا ہوگا۔ تاہم وہ ایک نئی ٹیم کے ساتھ جواں عمر کپتان ہوں گے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بالآخر خود کو آئندہ عام انتخابات سے قبل خود کو سیاسی اور انتظامی امور تک محدود کرلینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بلاول کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ وہ ملک بھر میں پارٹی مقبولیت میں آنے والی کمی دیکھ سکتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے کامیابی کے امکانات مدھم ہیں۔ اب ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ پارٹی میں بڑے پیمانے پر نمایاں تبدیلیاں لائی جائیں۔ کم از کم سندھ میں گڈ گورننس کی مثال قائم کی جائے۔ بلاول کے لئے یہ اچھی شروعات ہے کہ انہوں نے قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی آ زاد کشمیر کے صدر چوہدری یٰسین سے استعفے طلب کرلئے ہیں۔ یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پہلی بار پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کی بڑی وجہ کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کا ادراک کیا۔ حسن حکمرانی کی مثال کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کے پاس دو سال ہیں۔ اس دوران انہیں انتہائی کرپٹ بیورو کریٹس کی ٹیم سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ سندھ کے عوام سندھ میں نئے سیٹ اپ کو بلاول کے تصوّر سیاست کی بنیاد پر جانچیں گے۔ جو اپنے والد سابق صدر آصف علی زرداری سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ مراد علی شاہ کو قائم علی شاہ کا جانشین بتایا جارہا ہے، انہیں بڑی آزمائش کا سامنا ہوگا لیکن اگر انہوں نے انقلابی اقدامات کئے تو گورننس کے معاملے میں سندھ دیگر صوبوں کے مقابلے میں آسکتا ہے۔ انہیں اعتراف ہے کہ سندھ کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے۔ کسی صلاحیت کے بغیر انتہائی نا اہل اہلکار موجود ہیں۔ بدقسمتی سے جو باصلاحیت ہیں وہ بھی کرپٹ واقع ہوئے ہیں۔ پولیس سیاست زدہ اور کوئی ایک محکمہ بھی ایسا نہیں جو کرپشن سے آلودہ نہ ہو۔ ان تمام معاملات کو درست کرنے کے لئے انہیں اپنی حکومت کو احتساب کے لئے کھل کر جوابدہ بنانا ہوگا۔ آرٹی آئی ایکٹ کو موثر بنانے کے لئے انہیں خیبر پختون خوا اور حتیٰ کہ پنجاب سے سبق لینا ہوگا۔ تاکہ عوام کو معلومات اور اطلاعات تک آزادانہ رسائی ہو۔ لیکن اگر نئے وزیر اعلیٰ بھی ڈکٹیشن پر چلتے اور براہِ راست مداخلت بے جابرداشت کرتے رہے تو اس کے بلاول کے تصور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ نئی کابینہ کو دیکھنا بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ آیا یہ محض چہروں کی تبدیلی ہوگی یا بلاول حقیقت میں حکومتی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں نئے وزیر اعلیٰ کو بھی ویسے ہی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو قائم علی شاہ کو درپیش رہیں۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ میں تبدیلی کے لئے8سال انتظار کیا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چہرے تبدیل ہوئے ہیں یا سیاست میں تبدیلی آئی ہے۔ بلاول خود گزشتہ چند برسوں سے حکومت سندھ کی کارکردگی کے بڑے نقاد رہے ہیں۔ لہذا اب کی جانے والی تبدیلی کیا ذہنیت کو بدلنے کا بھی باعث بنے گی؟ آئندہ عام انتخابات سے قبل دو سال میں بلاول کی ٹیم حسن حکمرانی کی اچھی مثالیں قائم کرسکے گی۔ یہ قائم علی شاہ ہوں یا مراد علی شاہ جب تک لندن یا دبئی سے پارٹی چلائی جاتی رہے گی، یہ آسان سفر ثابت نہیں ہوگا۔
تازہ ترین