• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوئس حکام 4 شرائط سے دستبردار، چھپائی گئی دولت تک پہنچنا آسان ہوگیا،اسحٰق ڈار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈارنے کہاہے کہ سوئس حکام چارشرائط سے دستبردار ہوگئے ہیں جس کے بعد سوئس بینکوں میں  پاکستانی شہریوں کی چھپائی گئی دولت تک پہنچناآسان ہوگیا ہے ‘اب سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس راز نہیں رہیں  گے ۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جیونیوزکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک ‘‘میں میزبان حامدمیرسے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پروگرام میں نئے وزیر اعلیٰ سندھ کو درپیش چیلنجز اور کراچی میں فوجی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئےمشیراطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ امن وامان قائم رکھنانئے وزیراعلیٰ کیلئے سب سے بڑامسئلہ ہوگا‘رینجرز اور پولیس کے اتحاد میں جو کاروائیاں چل رہی تھیں وہ جاری و ساری رہیں تو میں سمجھتا ہو کہ یہ آپریشن نمٹ جائے گا اور امن و امان قائم ہو جائے گا‘ اس حوالے سے ایم کیوایم کے رہنماء علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ کراچی کے جس علاقے میں یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا میں اس علاقے کا منتخب ایم این اے ہوں‘یہ علاقہ پریڈی اسٹریٹ کا ہے ساتھ میں پارکنگ پلازہ ہے اور اس کے پیچھے بہت پہلے میں ایک دو کالعدم تنظیموں کی نشاندہی میں کر چکا ہوں‘پولیس اور رینجرز کو بھی معلوم ہے کہ یہاں پر اس طرح کے لوگ موجود ہیں‘کراچی میں کئی ایسے گوٹھ ہیں جہاں اس قسم کے لوگ موجود ہیں جو اجرتی قاتل اور کالعدم تنظیموں کے لئے کام کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جس طرح آپریشن چلا تھا اس میں زیادہ توجہ متحدہ پررہی‘رینجرز اختیارات پر مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے‘جیسے ہی آپریشن کا آغاز ہوتا ہے کئی مسائل چھڑ جاتے ہیں ‘اس بار بھی جب آپریشن کی منظوری کے لئے بات ہوئی توپھر پانچ سات باتیں اور شامل ہو گئیں کہ پورے سندھ میں دائرہ بڑھائیں گے وغیرہ‘ اب ظاہرہے آپ آپریشن کا دائرہ بڑھا رہے ہیں تو ایوان کواعتمادمیں لینا پڑے گا اور قیادت کو بھی ‘معمول سے ہٹنے کی جب بات ہوتی ہے تو دو تین دن دیر ہو جاتی ہے‘ سندھ میں نئے وزیر اعلیٰ کے آنے اور حکومت کے خلاف تحریک میں ایم کیو ایم کے کردار کے حوالے سے علی رضا عابدی کا کہنا تھاکہ سندھ میں نئے وزیر اعلیٰ کاچناؤ اسمبلی میں ہو گا اور اسی طرح رینجرز اختیارات پر بھی ایوان  میں بات ہونی چاہئے ۔ ہمارے نزدیک نئے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں خلاء کو کم‘اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جانا چاہئے ‘ٹی او آرزپرہمارا نقطہ نظر یہ تھا کہ وزیر اعظم کا نام پاناما پیپرز میں نہیں ہے‘ ان کے بچوں کا ہے لیکن جب آپ ٹی او آرز کو جوڈیشل کمیشن پر لے کر جائیں گے اور ان کے بچوں کو بلایا جائے گاتو وزیر اعظم صاحب خود بخود آجائیں گے‘ اس عمل کو بڑھنے دیں نہ کہ جیسے اب عمران خان سولو فلائٹ لے کر سڑکوں پر نکل گئے‘اسی طرح پیپلز پارٹی پنجاب سے سندھ آنے والی شاہراہوں کو بند کرنے کا سوچ رہی ہے‘ ان چیزوں سے فرق نہیں پڑے گا ۔ کراچی کے نامزد میئر کی گرفتاری کے حوالے سے مولابخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھی سندھ کے مستقل باشندے ہیں اور ہمارے فطری اتحادی ہیں۔ وسیم اختر کو سندھ حکومت نے گرفتار نہیں کیا‘عدالت نے کیا ہے ‘پروگرام کے دوسرے حصے میں کراچی میں دو فوجی جوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ‘سندھ میں رینجر اختیارات میں تاخیر اور وفاقی حکومت کے اس میں کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے‘رینجرز اختیارات کے مسئلے کو حل ہوناچاہئے اور کراچی میں مستقبل قیام امن ہونا چاہئے ‘سندھ حکومت اس معاملے کو ترجیح دے ‘نئے وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ اس مسئلے کومنٹوں میں حل کریں اور اگر ان کے کوئی تحفظات ہیں تو وہ بھی سامنے لائیں‘میں امید کرتا ہوں کہ نئے وزیر اعلیٰ ایک آدھ دن میں اس کو حل کریں گے‘ پیپلز پارٹی کی قیادت سے بیک ڈور چینل سے رابطے کے سوال پر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفاد میں میرا ساری پارٹیوں سے رابطہ ہے‘آئین میں واضح طور پر لکھاہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کا تقرروزیراعظم اوراپوزیشن لیڈرمل کر کریں گے ‘ ہر ایک سیٹ کے لئے پارلیمانی کمیٹی میں تین نام بھیجنے ہوتے ہیں ‘وزیر اعظم کے علاج کی وجہ سے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے مجھے اس عمل کو مکمل کرنے کا کہا گیا تو عید کے بعد میری خورشید شاہ سے دس میٹنگز ہوئیں اور ہر دفعہ میں اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیتا تھااور خورشید شاہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے تھے‘ پاناما پیپرز کے ٹی او آرز کے حوالے سے اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ اس حوالے سے کئی دستاویزات کا تبادلہ ہوا ہے، بات یہ ہے کہ کس قانون کے تحت آپ وہ کام کروائیں گے 1956 کے‘ ہمارے ٹی او اآرز میں جو مسودہ قانون تھا جس کے ذریعے یہ کام ہو گا وہ ہمارے دونوں تیار ہیں، دوسری طرف سے ان کے ٹی اوآرز میں انفرادیت ہے ۔ سوئس بینکوں میں موجودرقم پر معلومات کے تبادلے‘ اس کے لئے معاہدے پر وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت پہلی حکومت ہے جس نے یہ قدم اٹھایا ، اگست 2013 میں سمری آگے بڑھائی اور ستمبر کی کیبنٹ میٹنگ میں اس کی منظوری ہو گئی ۔اس میں معلومات کے تبادلے کا جو دو طرفہ معاہدہ ہے وہ 2005ءمیں سوئٹزرلینڈا ور پاکستان کے درمیان ہوا تھا اس میں بہت کم معلومات ہم ان سے مانگ سکتے ہیں‘ اس کو دوبارہ بات کر کے کھولنا تھا ‘اس حوالے سے بات کی جاتی تو چھ چھ ہفتے بعد جواب آتا تھا‘ اس میں ایک سال بعد انہوں  نے کہا کہ ہم معلومات کا تبادلہ کر لیتے ہیں۔2014 میں انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے 2010 میں جو ملٹی لیٹرل ایکسچینج آف انفارمیش ہے اس کو لے لیتے ہیں لیکن ان کی جانب سے کڑی شرائط رکھی گئیں۔اس کے بعد کئی میٹنگز ہوئیں اور گذشتہ جون میں بجٹ پیش کرنے کے بعدا نہوں نے اپنی شرائط واپس لے لی ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ان کے اندورنی معاملات ہیں پارلیمنٹ وغیرہ لیکن ہمارے درمیان ابتدائی بات ہو گئی ہے ‘وزیر خزانہ کا مزیدکہناتھاکہ سوئس بینکوں میں چھپائی گئی دولت تک پہنچ گئےہیں‘اب سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس راز نہیں رہیں گے‘سوئس حکومت نے اپنی4شرائط ختم کرکے معاملہ آسان کردیا‘پاکستان اور سوئٹزر لینڈ میں اطلاعات کے تبادلے پر اتفاق ہوگیا‘سوئس بینکوں میں چھپائی گئی دولت تک پہنچ گئے۔
تازہ ترین