• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان ایک زمانے سے ہندوستان کی فلموں کی بڑی مارکیٹ رہا ہے۔ ہندوستانی فلموں کے گیت کابل و قندھار میں ہمیشہ مقبول رہے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہوں گے کہ افغانستان میں صرف پشتو یا فارسی بولی جاتی ہے لیکن وہاں ہندوستانی فلموں کے گیت عام افغانی نوجوانوں کو یاد ہوتے تھے۔ یہ لوگ بازاروں میں اونچی آواز سے یہ گیت گاتے ہوئے پھرتے تھے۔ افغانیوں نے ہندوستانی گیتوں کو مختلف مواقع پر اپنے قومی جذبات کے اظہار کیلئے بھی خوب استعمال کیا۔
محمد رفیع کے گیت افغانیوں میں بہت پسند کئے جاتے رہے اور اب بھی ان گیتوں کے ریکارڈ چائے خانوں میں چلتے ہیں اور نوجوان آواز کے ساتھ آواز ملا کر انہیں گاتے ہیں۔ افغانستان میں جب دائود حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو نور محمد ترہ کئی برسر اقتدار آیا تو کچھ عرصے کیلئے افغانستان میں سنّاٹا چھا گیا، چائے خانے ویران ہو گئے پھر نور محمد ترہ کئی بھی ختم ہوا حفیظ اللہ امین آیا اور اس نے روسی افواج کو افغانستان میں آنے کی دعوت دے دی۔ کچھ ہی دنوں میں کابل کے بازاروں اور چوراہوں پر روسی افواج پہرہ دینے لگے۔ اب افغانیوں کے نغماتی حسن نے جاگنا شروع کیا۔ اس زمانے میں رفیع کا ایک گیت معمولی تبدیلی کے ساتھ گایا جانے لگا۔ لڑکے بالے روسی سپاہیوں کو دیکھ کر با آواز بلند یہ گیت گایا کرتے:
ہم نے پکارا اور تم چلے آئے رے
جان ہتھیلی پر لے آئے رے
روس تقریباً دس سال تک افغانستان میں زور آزمائی کرتا رہا اور جب وہ شکست سے دوچار ہو کر جا رہا تھا تو جاتے قافلوں کو دیکھ کر نوجوان رفیع کا یہ گیت گایا کرتے تھے:
یہاں جو بھی آیا
گیا ہاتھ مل کے
یہ گیت آج تک افغانستان میں عام گایا جاتا ہے اور غیر ملکی حملہ آوروں کیلئے یہ گیت ایک نذرانے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جب امریکہ، افغانستان میں آیا اور اس کے ساتھ نیٹو والے بھی آئے اور پھر ہندوستانیوں کی آمد آمد ہوئی تو یہ گیت ان کے سامنے با آواز بلند گایا جانے لگا
تم کابل کی راہوں میں چلنا سنبھل کے
یہاں جو بھی آیا، گیا ہاتھ مل کے
امریکہ نے افغانستان کے شہروں میں فوجیں داخل کرنا شروع کیں تو کئی افغانی ان کے ساتھ تعاون کرنے لگے، کئی لوگ ان کے مخبر بنے، کئی مددگار بنے اور کئی ان کے منصوبوں پر کام کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر افغانی لوگ یہ گانا گایا کرتے تھے:
امریکیوں سے نہ اکھیاں ملانا
امریکیوں کو تو اک دن ہے جانا
ایسے لوگ جو امریکیوں کے ہمدرد تھے ان کو دفاتر، چائے خانوں اور بازاروں میں دیکھ کر لوگ یہ گیت بھی گاتے:
جانے والے نے یہ بھی نہ سوچا
ہم اکیلے ہی رہ جائیں گے
2014ء میں امریکی افواج کی روانگی کے اعلان کے بعد یہ گیت بہت مقبول ہوا ہے اور ان کے ہمدردوں کے اترے ہوئے چہروں کو دیکھ کر یہ گیت بار بار گایا جاتا ہے
امریکہ نے افغانستان میں آنے کے بعد بڑی تیزی سے افیون کی کاشت کو بحال کرایا۔امریکہ کے ہیروئنچیوں اور ڈرگ مافیا کی ریلیف کیلئے پھر سے ہیروئن بننا شروع ہوئی۔ ہیروئن کو ہندوستانی فلمی گیتوں کی زبان میں ’’پیار کا طوفان‘‘ کہا گیا۔ جب بھی کوئی امریکی جہاز فضا میں بلند ہوتا تو افغانی لوگ سمجھتے کہ یہ ’’پیار کے طوفان‘‘ کو لے کر جا رہا ہے۔ اس زمانے میں ان جہازوں کو دیکھ کر فلم ’آن‘ کا یہ گیت گایا جاتا تھا:
جیٹ میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے
ہم آج اپنی موت کا سامان لے چلے
سامان لے چلے........
امریکہ جب افغانستان میں آیا تو بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود لایا تھا۔ اب وہ یہ ساز و سامان واپس لے جا رہا ہے۔ ہر روز امریکی جہاز بڑے بڑے کنٹینر لے کر ہوائی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں، ان کو دیکھ کر افغانی لوگ اس گیت کے ذریعے صورت حال کی ترجمانی کرتے ہیں:
اب تم بھی جانے والے ہو
سامان تو گیا
تازہ ترین