• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آ پ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے بچے کے لئے بازار سے دودھ خریدنا اس لئے چھوڑ دے کیونکہ دودھ خالص نہیں ملتا اور اس کی جگہ وہ اپنے بچے کی ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے اسے ’’خالص پانی ‘ ‘ پلائے اور یہ امید کرے کہ پانی ہڈیاں مضبوط کر دے گا ؟ کیا آ پ نے کبھی سنا ہے کہ کسی باورچی نے ہانڈی میں سرخ مرچوں کی جگہ اس وجہ سے چینی استعمال کرنی شروع کر دی ہو کہ مرچوں میں اینٹوں کے برادے کی ملاوٹ ہوتی ہے ؟ کیا آ پ نے کبھی سنا ہے کہ کسی نے اپنے گھر کی تعمیر پلاسٹک سے کی ہو کیونکہ اس کے تئیں سیمنٹ میں ریت کی ملاوٹ کی جاتی ہے ؟ ظاہر کہ یہ احمقانہ باتیں ہیں ۔ بازار میں اگر خالص دودھ دستیاب نہیں تو پانی بہرحال دودھ کا متبادل نہیں ہو سکتا، والدین اپنے بچے کے لئے خالص دودھ ہی تلاش کریں گے ۔ مرچوں میں اگر ملاوٹ ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آلو گوشت میں دس چمچ خالص شکر ڈال دی جائے ، ہانڈی کو ذائقہ دار بنانے کے لئے خالص مرچیں ہی ڈالنی پڑیں گی۔ مکان کی تعمیر سیمنٹ سے ہی ہوگی ، پلاسٹک کا مکان کوئی نہیں بنائے گا۔میں معافی چاہتا ہو ں کہ فضول قسم کی مثالوں سے آ پ کے منہ کا ذائقہ خراب کیا ، مگر مجبوری ہے کیونکہ اپنے ہاں بعض لوگ جمہوریت کے خلاف مقدمہ اسی قسم کی بے معنی مثالوں سے کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی منطق کے مطابق پاکستان کی جمہوریت دراصل جمہوریت ہی نہیں ، اسے جمہوریت کہنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص پانی کو دودھ ثابت کرنے کی کوشش کرے ۔ یہ چونکہ دلیل نہیں جملے بازی ہے اس لئے اصولاً اس کا جواب بھی ایسے ہی دیا جانا چاہئے مگر اس کے باوجود مفاد عامہ کی غرض سے خاکسار نے مثالیں دے کر بتا بھی دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر اس جعلی ، لولی لنگڑی ، چیچک زدہ جمہوریت سے کسی کی تسلی نہیں ہوتی تو کم از کم وہ ایک کام تو کر ہی سکتا ہے کہ آزادی اظہار کے اپنے حق سے دستبردار ہو جائے جو آئین اور جمہوریت کے تحت ہی ہر شہری کو ملتا ہے ۔ یہ اس ’’طوائف جمہوریت‘‘ کا ہی خاصہ ہے کہ جس کا جو دل کرتا ہے وہ بول اور لکھ دیتا ہے ۔ جن کا خیال ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے دور میں بھی انہیں یہ سب آزادیاں حاصل تھیں توان سے گزارش ہے کہ تین نومبر 2007کی تاریخ ریوائنڈ کرکے ٹی وی لگائیں اور دیکھیں اس روز کیا ہوا تھا ، ’’خیر اندیش آمر ‘ ‘ نے کتنے ٹی وی چینل بند کئے تھے اور اعلیٰ عدلیہ کے کتنے جج صاحبان کو نظر بند کرکے اس ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کیسے سلب کئے تھے ، 1958، 1970اور 1977میں جو ہوا اس کی تو بات ہی جانے دیں ۔مجھے تو اب ایسے لوگوں پر ترس آتا ہے جو جمہوریت کے مختلف نام رکھ کر ، اسے گالیاں دے کر ، فقرے کس کے اور نظام کے خلاف عام آدمی کے غصے کو بڑھاوا دے کر جمہوریت کے خلاف بڑی جدو جہد کے ساتھ ایک کیس تیار کرتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے ان کا پورا مقدمہ زمین بوس ہو جاتا ہے ،عوام کا ایک فیصلہ جمہوریت کے خلاف اس مقدمے کی ایسی تیسی پھیر دیتا ہے ۔
یہ درست بات ہے کہ سوسائٹی کا ایک مخصوص طبقہ خلوص نیت سے اس نظام کو فرسودہ سمجھتا ہے اور اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے ، یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ، مگر جب اس طبقے کے سرخیل یہ کہتے ہیں کہ موجودہ ووٹوں کی گنتی کے نظام سے بہتری کی کوئی امید نہیں ، یہ نظام کسی ڈائن کی طرح خون چوستا رہے گا اور احمق عوام جمہوریت کے نام پر تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنا ہی چہرہ سرخ کر لیں گے تو پھر ان پی ایچ ڈی صاحبان سے میرا سوال ہوتا ہے کہ اس کے متبادل کے طور پر جس نظام کی راہ آپ ہموار کرتے ہیں وہ سوائے آمریت کے اور کچھ نہیں ۔اس کے جواب میں وہ ا طمینان سے کہتے ہیں کہ ہاں اس بازاری جمہوریت سے ماڈل آمریت ہی بہتر ہے اور ساتھ ہی مثالیں دیتے ہیں برطانیہ کی ،جہاں وزیر اعظم چپ چاپ استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا ہے۔ ناروے کی، جہاں وزیر اعظم ٹیکسی ڈرائیور کا بھیس بدل کر عوام کے مسائل کا کھوج لگاتا ہے۔ سویڈن کی جہاں وزیر اعظم سائیکل پر دفتر آتا ہے ۔ یہ تمام باتیں بے حد خوش کن ہیں مگر کیا کبھی کسی نے ان بزرجمہروں سے کسی نے یہ پوچھا ہے کہ ان ممالک کے اپوزیشن لیڈر کیا کرتے ہیں ، وہ اپنے فرائض کیسے ادا کرتے ہیں، عوام کتنا ٹیکس دیتے ہیں، کتنی دفعہ ان ملکوں میں جمہوریت کا بستر گول کیا گیا ہے ، کتنے وزرائے اعظموں کو پھانسی ، جلا وطن اور بم دھماکوں میں اڑایا گیا ہے !موازنہ صرف وزیر اعظم کا وزیر اعظم سے نہیں ہونا چاہئے ، ہر ادارے کے سربراہ کا اور عوام کا بھی ان ملکوں سے ہونا چاہئے ۔ ان تمام ممالک میں بھی ایسی ہی لولی لنگڑی ، طوائف جمہوریت تھی ، فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں کے دانشور آئے دن آمریت کا مقدمہ نہیں تیار کرتے تھے ، انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ ان کا نظام صرف جمہوریت سے ہی ٹھیک ہوگا اور اگر یہ ملاوٹ زدہ جمہوریت ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے ، مزید جمہوریت نہ کہ سادہ پانی!تاریخ نے یہ بات ثابت کردی۔
کالم کی دُم16:دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول میں122طلبا اور 22اساتذہ و عملے کے افراد کا قتل عام ہوا۔ اس واقعہ نے پاکستان تو کیا پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ چند روز قبل 9جولائی کو اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کی تصدیق نہ صرف امریکہ بلکہ آئی ایس پی آر نے بھی کی۔ میں اب تک اس مخمصے میں ہوں کہ جن لوگوں نے دہشت گردوں کی ترجمانی کی اور آج تک اپنے اس فعل پر کسی قسم کی ندامت کا اظہار نہیں کیا ، انہوں نے اب تک اس ڈرون حملے پر امریکہ کی مذمت کیوں نہیں کی ؟ منہ میں گھگنیاں ڈال کر کیوں بیٹھے ہیں ؟ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟؟؟
تازہ ترین