• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں 15 جولائی کی رات فوجیوں کے ایک جتھے کی جانب سے کی جانے والی ناکام بغاوت کے بارے میں اگرچہ گزشتہ ہفتے کے کالم میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت تک زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی تھیں اب یہ تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
پندرہ جولائی کو دوپہر دو بجے کے قریب استنبول آرمی ایویشن اسکول سے تعلق رکھنے والے ایک جونیئر فوجی افسر نے ترکی کی انٹیلی جنس سروس MIT کو ٹیلی فون کرتے ہوئے رات گئے کئی ایک ہیلی کاپٹروں کے پرواز کرنے اور چند ایک مقامات کو نشانہ بنائے جانے سے آگاہ کیا۔اس اطلاع کے ملنے کے فوراً بعد انٹیلی جنس سروس کے سربراہ حقان فدان نے چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل حلوصی آقار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ملنے کی اطلاع دی اور حقان فدان وقت ضائع کیے بغیر مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئےجہاں بری فوج کے سربراہ جنرل صالح ذکی چولاک بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران ہی جنرل صالح ذکی نے آرمی ہی کے چیف آف اسٹاف، جنرل اِحسان اُیار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے آرمی ایویشن اسکول جانے اور حالات کا خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے۔ یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ فوج کے جتھے جس نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا تھا اس میں صدر کے اے ڈی سی کے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان کے اے ڈی سی بھی شامل تھے اور چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس میں انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کے ساتھ ہونے والی غیر معمولی میٹنگ سے چیف آف جنرل اسٹاف کے اے ڈی سی آگاہ ہو چکے تھے اور انہوں نے اس غیر معمولی اجلاس کے بارے میں باغی جتھے کے سرغنہ کو آگاہ کیا جس پر اس جتھے نے رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے رات دس بجے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ماہ اگست میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ماہ اگست میں صدر ایردوان کی قیادت میں ہونے والے ا علیٰ فوجی شوریٰ کے اجلاس جس میں کئی ایک جنرلوں کو ریٹائر کیے جانے اور ان کی جگہ نئے جنرل متعین کیے جانےکی اطلاع ملنے پر ماہ اگست کی بجائے 15 جولائی رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن دوپہر ہی سے چیف آف جنرل اسٹاف، جنرل حلوصی آقار کے آفس میں انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کی آمد کی بھنک پڑنے پراس گروہ نے رات تین بجے کی بجائے رات دس بجے ہی حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کرلیا اور رات دس بجے جینڈا مری کے دستوں نے استنبول کے براعظم ایشیا اور براعظم یورپ کو ملانے والے دونوں بڑے معلق پلوں کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی چھائی رہی اور کسی قسم کا کوئی بیان بھی جاری نہ کیا گیا تاہم میڈیا کی انتھک کوشش کے نتیجے میں رات گیارہ بجکر 23 منٹ پر صدر ایردوان سے "سی این این ترک" کا فیس ٹائم کے ذریعے رابطہ قائم ہوا اور صدر ایردوان نے عوام سے اس بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی جس پر دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔گیارہ بج کر چوبیس منٹ پر باغیوں نے انقرہ میں پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا اور بمباری کرتے ہوئے 50 پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا۔ رات ساڑھے گیارہ بجے جنرل حلوصی آقار کو یرغمال بنالیا گیا اور ان کو انقرہ کے قریب آکِن جی ائیر بیس پر لے گئے جہاں اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن کی طرح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انہیں اس موقع پر امریکہ میں موجود دہشت گرد تنظیم "فیتو " کے سرغنہ فتح اللہ گولن سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی گئی الیکن جنرل حلوصی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھنے سے آگاہ کیا ۔ رات بارہ بج کر نو منٹ پر باغیوں نے انٹیلی جنس سروس MIT کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا اور عمارت کو شدید نقصان پہنچایا تاہم اس وقت تک MIT کے سربراہ حقان فدان اپنے آفس سے کہیں اور روانہ ہوچکے تھے۔ رات بارہ بج کر گیارہ منٹ پر صدر ایردوان جو مرمریس میں ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے فرسٹ آرمی کے کمانڈر امید دوندار کی جانب سے استنبول میں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروانے کے بعد اپنے ہوٹل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے دالامان ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔انہوں نے ہیلی کاپٹر کی لائٹس بند کرنے اور نچلی پرواز کرتے ہوئے ریڈار کی پہنچ سے دوررہتے ہوئے دالامان ائیر پورٹ پہنچنے کا حکم دیا ۔اس دوران سی این این ترک پر صدر کے پیغام نے ملک بھر میں بھونچال پیدا کردیا تھااور لوگ جوق در جوق شہروں کے مرکزی علاقوں اور ہوائی اڈوں کا رخ کرنے لگے۔ رات بارہ بج کر 57منٹ پرترکی کے قومی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی پر فوجی ٹولے نے قبضہ کرلیا اور فوری طور پر نیوز کاسٹر سے نئی فوجی حکومت کا اعلامیہ پڑھنے کو کہا گیا اور اس طرح اقتدار فوجی حکومت کے سنبھال لینے کی خبر نشر کردی گئی۔ فوجی ٹولے نے دیگر پرائیویٹ چینلز کی نشریات روکنے کے لیے انقرہ کے گؤلباشی کے علاقے میں ترک ساٹ سیٹلائٹ اسٹیشن تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن غلط مقام پر بمباری کی وجہ سے نشریات روکنے سے قاصر رہے۔ رات ایک بج کر ایک منٹ پر اس جتھے نے انقرہ پولیس ہیڈکوارٹر پر ایف سولہ قسم کے طیاروں سے بمباری کی اور عمارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایک بج کر 39منٹ پر اس بمباری تلے ترکی کی قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس سے نائب وزیراعظم بیکر بوز داع نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ" پارلیمنٹ پر بمباری کے باوجود وہ پارلیمنٹ ہی میں رہیں گے اور آخری دم تک آئینی حکومت کا تحفظ کرتے رہیں گے" ۔ رات دو بجے عوام اور پولیس نے مشترکہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے باغیوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ۔ رات دو بج کر بیس منٹ پر عوام نے ترکی کے قومی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی میں داخل ہو کر باغیوںکونکال باہر کیا ۔ رات دو بجکر 30منٹ پر فوجیوں کے ایک ٹولے نے ایوان صدرمیں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن وہاں پر پہلے ہی سے موجود عوام نے ان باغیوں پر قابو پاتے ہوئے ان کو پولیس کے حوالے کردیا۔ رات دو بج کر 42منٹ پر باغیوں نےپارلیمنٹ پر بمباری کی اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ رات تین بجے ٹی آر ٹی نے اپنی باقاعدہ نشریات کا آغاز کردیا۔ رات تین بج کر بیس منٹ پر باغیوں نے صدر ایردوان کے مرمریس میں قیام پذیر ہوٹل پر حملہ کردیا لیکن صدر ایردوان باغیوں کےپہنچنے سے قبل ہی جاچکے تھے۔اس دوران صدر ایردوان تین بج کر بیس منٹ پر استنبول پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ہوائی اڈے پر ہی عوام سے خطاب کرتے ہوئے بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنانے تک جدو جہد جاری رکھنے کی اپیل کی۔ سولہ جولائی صبح سویرے چھ بج کر 43منٹ پر باغی فوجیوں نے ایوان صدر کے قریب بمباری کی جس کے نتیجے میں پانچ شہری ہلاک ہوگئے۔ صبح چھ بج کر 44منٹ پر استنبول کے دونوں پلوں سے عوام نے فوجیوں کو جانے پر مجبور کردیا اور پلوں کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ صبح آٹھ بج کر بتیس منٹ پر آکن جی ائیر بیس پر اسپیشل فورسز نے حملہ کرتے ہوئے چیف آف جنرل اسٹاف ، جنرل حلوصی آقار کو رہا کروالیا ۔دوپہر بارہ بج کر 57منٹ پر وزیراعظم بن علی یلدرم نے جنرل حلوصی آقار کے ساتھ ٹی وی کیمروں کے سامنے آ کر ملک میں بغاوت کو کچل دئیے جانے اور حالات پر حکومت کے مکمل کنٹرول ہونے سے آگاہ کیا۔ آئندہ کسی کالم میں باقی ماندہ پہلوئوں پر قلم اٹھانے کی کوشش کروں گا۔
تازہ ترین